مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تاخیر کیوں؟

لوکل گورنمنٹ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کی ایک صورت ہوتی ہے جسے جمہوریت یا عوام کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے ممال میں رواج دیا جاتا ہے۔ وہ ملک جہاں مقامی حکومتیں موجود نہ ہوں انہیں جمہوری ممالک کہلوانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ بادشاہت اور جمہوریت میں طرز حکمرانی کا جو بنیادی فرق ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بادشاہت میں ہر اختیار سمٹ کر بادشہ سلامت کی ذات میں آ جاتا ہے جب کہ عوام کی حکومت میں جو طرز حکمران متعارف کروایا جاتا ہے اس میں اختیارات ایک فرد کی بجائے منتخب اداروں کے پاس ہوتے ہیں اور مرکزی حکومت اپنی ذمہ داریوں اور اختیارات کو کم کر کے نچلی سطح یعنی مقامی حکومتوں کو قائم کرتی ہے اور اختیارات ان حکومتوں کو سونپ دیے جاتے ہیں تاکہ زیادہ تر عوامی مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکیں۔ جس جمہوری سیٹ اپ میں زیادہ سے زیادہ اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جائیں اُسے تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ مہذب دنیا میں آج کا غالب رجحان مقامی حکومتوں کو مالیاتی اور انتظامی لحاظ سے بااختیار بنانے کا ہے۔ پاکستان کا آئین مقامی حکومتوں کے قیام کی بات کرتا ہے اور یہ بات باقاعدہ ریاست پاکستان کا پالیسی اصول ہے۔ آئین میں جہاں پالیسی اصولوں کا ذکر ہے وہاں آرٹیکل32میں درج ہے کہ ریاست مقامی حکومت کے اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی ۔ آرٹیکل 140-Aمیں لکھا ہے کہ ہر صوبائی حکومت لوکل گورنمنٹ سسٹم قائم کرے گی اور سیاسی ، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری و اختیارات کو مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرے گی۔ اس آئینی ذمہ داری سے ہمیشہ پہلو تہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جن جماعتوں کے قائدین کو بات بات پر جمہوریت اور آئین کا بخار چڑھ جاتا ہے ان کی جمہوریت پسندی ملاحظہ کرنی ہو تو اس کو لوکل گورنمنٹ کے قیام اور مقامی حکومتوں کو تفویض کیے گئے اختیارات کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں تو ظاہر ہو جائے گا کہ یہ کس قدر جمہوریت پسند ہیں اور آئین کی پابندی پر کس قدر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ ان کا وعظ کچھ اور ہے اور عمل کچھ اور۔ ان کے دوغلے پن نے وطن عزیز کے سیاسی نظام کو عامة الناس کی نظروں میں مکروہ بنا دیا ہے۔ جمہوریت اہلیان وطن کے لیے قابل احترام اور مقدس نظام آج تک اس وجہ سے نہیں بن سکا کیونکہ جمہوریت کی روح کے مطابق نہ ان کا انداز حکمرانی رہا اور نہ ہی انہوں نے اختیارات کو جمہوریت کی سپرٹ کے مطابق مقامی سطح پر منتقل کرنے کی کوشش کی۔ اٹھارھویں آئینی ترمیم کی رو سے اختیارات مرکز سے صوبوں کو منتقل کیے گئے مگر صوبوں نے انہیں ضلع، تحصیل اور یونین کونسلز تک منتقل نہ کیا۔ خیبر پختونخوا حکومت گذشتہ دور حکومت میں ایک استثنیٰ رہا ۔وہاں تحریک انصاف کی حکومت نے ایک ماڈل لوکل گورنمنٹ سسٹم معارف کرایا اور صحیح معنوں میں اختیارات کو ضلع کی سطح پر منتقل کیا۔ مزید برآں ویلج کونسلوں کا قیام اور بلحاظ آبادی ان کو صوبائی حکومت کی جانب سے ڈائریکٹ فنڈز کی فراہمی ایسے منفرد اقدامات تھے جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج لیکن تحریک انصاف کی حکومت بھی نئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کی موشگافیوں میں اُلجھ گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ دورۂ لاہور میں لوکل گورنمنٹ انتخابات کے جلد انعقاد پر زور دیا ہے جو ایک خوش آئندہ پیش رفت ہے۔ صوبہ پنجاب اس لحاظ سے بدقسمت رہا کہ ماضی کے نام نہاد جمہور حکمرانوں نے جو آئین اور قانون کی سربلندی کا لیکچر دیتے نہیں تھکتے اپنی اس آئینی ذمہ داری کو نبھانے سے پہلو تہی کرتے رہے اور 2008ء سے لے کر 2015ء تک کے سات سال لوکل گورنمنٹ الیکشن نہ کروائے۔ عدالت عظمیٰ کی مداخلت کے بعد 2015ء میں جب
انتخابات مجبوراً کروانے پڑ ئے تو 2017ء تک ان اداروں کو کام نہ کرنے دیا گیا اور یہ ادارے انتخابات ہونے کے باوجود قائم نہ ہو سکے۔ یہ ہے مسلم لیگ ن کا اصل چہرہ ۔ 2019ء میں تحریک انصاف کی حکومت نے نئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو متعارف کرایا۔ اس نئے مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت انتظامی تبدیلیاں کی جانی تھیں جن کے لیے ایک سال کا وقت مقرر تھا لیکن سست روی کے باعث دو سال کا قیمتی وقت ضائع ہو گیا۔ یہ تاخیر تحریک انصاف کی حکومت کے لیے بدنامی کا باعث بنی ہے۔ دریں اثنا عدالت عظمیٰ کے حکم پر خت شدہ بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا گیا ہے لہٰذا اب انتخابات ان اداروں کی معیاد جو دسمبر 2021ء میں پوری ہو رہی ہے کے بعد ہی ہوں گے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد پنجاب کی صوبائی حکومت مارچ 2022ء تک مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لا کر مالیاتی و انتظامی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی یقینی بنائے گی۔ دوسری طرف صوبہ سندھ کے حکمران ہیں جو اپنے آپ کو جمہوریت کے چیمپئن سمجھتے ہیں ، ان کی جمہوریت سے محبت کا احوال ملاحظہ ہو۔ لوکل گورنمنٹ کے ادارے سندھ میں گذشتہ سال اپنی مدت پوری کر چکے ہیں لیکن سندھ حکومت نئے انتخابات کرانے سے گریزاں ہے۔ پہلے اس کا بہانہ تھا کہ مردم شماری کے سرکاری نتائج آنے کے بعد بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے لیکن اب جبکہ مردم شماری کے سرکاری نتائج پبلک کر دیے گئے ہیں تو سندھ کے نام نہاد جمہوری حکمران نئی تاویلیں تراش رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں کرنی تھیں لیکن سندھ حکومت ضروری ڈیٹا اور نقشہ جات کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ ایک نئی بہانہ بازی لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں مجوزہ ترمیم ہے جس پر عمل درآمد کے لیے چھ ماہ کا وقت مانگا جا رہا ہے۔ اس بہانہ بازی کے تناظر میں بالآخر چیف الیکشن کمشنر کو کہنا پڑا کہ سندھ حکومت جان بوجھ کر انتخابات میں تاخیر کر رہی ہے۔ یہ ہیں وہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ جمہوریت ان کے خون میں شامل ہے، اس دعوے کے برعکس ان کا عمل دیکھیں تو فسانے اور حقیقت میں فرق نظر آتا ہے۔