Shazray

مسائل مختلف اور حکام کا ایک ہی رویہ و انداز

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت اجلاس میں ڈینگی کی روک تھام کیلئے موثر مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس مقصد کیلئے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں صوبائی سطح پر الگ کوآرڈی نیشن کمیٹی تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔کمیٹی اس سلسلے میں تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کی ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے علاوہ ڈینگی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ کریگی اورڈینگی صورتحال کے بارے میں وزیر اعلیٰ کو ہفتہ وار رپورٹ پیش کرے گی۔اجلاس کو بتایا گیا کہ ضلع پشاور میں ڈینگی کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ
ہوئے ہیں جن کی تعداد253ہے اور ان میں سے اب تک 213مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر حکام کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو ڈینگی کی روک تھام کے لئے اقدامات کا بتایا گیا اس موقع پر اگر وزیر اعلیٰ ان حکام سے اس وباء کے پھیلنے کے بعد میڈیا پر شور مچ جانے تک لاپرواہی برتنے پر برہمی کا اظہار کرتے اور بیورو کریسی کو اپنے اس طرز عمل کو ترک کرنے کی سختی سے ہدایت کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا ممکن ہے وزیر اعلیٰ نے متعلقہ حکام کو اجلاس میں سخت سست کہا ہو اور مختلف سخت سوالات کئے ہوں جسے رپورٹ نہ کیا گیا ہو ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے روایتی اجلاس اور اس کی رپورٹ کا سالہا سال سے ایک ہی طرز پر اجراء حکومتی ساکھ کے لئے بہتر نہیں اس کے لئے اب حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے سامنے وہ اقدامات آئیں اور وہ سختی و ہدایات او ر کارروائیاں لائی جائیں جس کی ضرورت عوام محسوس کرتے ہیں ایسا کرکے ہی عوام کو اچھی حکمرانی کا تاثر دیا جا سکتا ہے عوام کو اس طرح کے اجلاسوں کے نتائج و عوامل کا جوتجربہ ہے اس سے عوام بیزار آچکے ہیں اور اگر یہی کچھ جاری رکھنا ہے تو حکومت خود ہی سوچے کہ پھر تبدیلی آئے گی کیسے اور اس کا تاثر کیسے دیا جائے گا عوام عملی طورپر جب تک کام ہوتا نہیں دیکھیں گے اور سرکاری حکام کی طرز عمل میں تبدیلی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ترچھی نگاہوں اور سخت اقدامات و کارروائی کو عملی طور پر ہوتا نہیں دیکھیں گے اور ان کو محسوس نہیں کرایا جائے گا تو پھر ماضی و حال کی حکومتوں میں ان کو فرق نظر نہیں آئے گا اور تبدیلی کا نعرہ کہیں کھو جائے گا جوحکومت کے حق میں اچھا نہیں۔
کارروائی کیجئے پھلجھڑیاں نہ چھوڑیئے
ایف بی آرکی جانب سے پشاو ر کے30بڑے تاجر وں کے انکم ٹیکس کے گوشواروں کی تفصیلات کے مطابق پشاور میں ساڑھے چار کروڑ روپے کا کاروبار کرنے والے تاجر نے گزشتہ سال پانچ ہزار روپے کا ٹیکس جمع کیا ہے دوسرے نمبر پر پشاور کے اڑھائی کروڑ روپے کے کاروبار کرنے والے تاجر نے پانچ ہزار روپے کا ٹیکس جمع کرایا ہے بعض تاجروں کے اثاثہ جات پشاو ر کے علاوہ پنجاب ، اور سندھ میں بھی ہیں جنہوں نے ٹیکس کے انتہائی کم گوشوارے
جمع کرائے ہیں ۔ ٹیکس کے گم گوشوارے جمع کرانے والے تاجروں میں سے بعض تاجر رہنما ء بھی شامل ہیں ذرائع نے بتایا ہے کہ ان کے اثاثہ جات ، ان کی گاڑیوں ، ان کے بچوں کے پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم تفصیلات ، شاپنگ کی تفصیلات وغیرہ اکٹھی کی جا رہی ہیں ۔ ایف بی آر کی جانب سے تاجروں کے ٹیکسوں کی ادائیگی کی تفصیلات جاری کرنے کا عمل تاجروں کو احتجاج سے روکنے کی اگر سوچی سمجھی سعی نہیں اور ایف بی آر ایک تسلسل سے آئندہ بھی یہ عمل سرانجام دیتا رہے گا تو اس کی حمایت فطری امر ہو گا لیکن اگر صرف تاجروں کے احتجاج کو وقتی طور پر دبانے کے لئے یہ حربہ اختیار کیا گیا ہے تو یہ مناسب امر نہیں بلکہ سودے بازی کے مترادف ہے جس کی گنجائش نہیں صورتحال جو بھی ہو ایف بی آر کے حکام نے تفصیلات جاری کرنے میں نامناسب وقت کا انتخاب کیا ہے جہاں تک بڑے بڑے تاجروں کے ٹیکس دینے کی شرح کا تعلق ہے جب ایف بی آر کو ساری تفصیلات کا علم ہے ہی تو ان کے ٹیکس کی تفصیلات کا اجراء کافی نہیں ان کو ملنے والی سزا کا بھی تذکرہ ہونا چاہئے تھا جب تک ایف بی آر اس طرح کا عملی مظاہرہ نہیں کرتی پھلجھڑیاں چھوڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
سرکاری ہسپتالوں بارے بڑھتی شکایات
شہر کے ایک سرکاری ہسپتال میں کروڑوںروپے کے طبی آلات سٹور میں ذخیرہ کرنے اور معمولی ٹیسٹ اور ایکسریز وغیرہ کیلئے مریضوں کو نجی ہسپتالوں میں بھیجنے کی نشاندہی اور کمیشن کی خاطر ڈاکٹرز مریضوں کو غیر ضروری ادویات تجویزکرنے کا عمل معمولات کا حصہ ہے ان عام شکایات کے اعادے در اعادے کے باوجود محکمہ صحت کے حکام عملی کارروائی کی کم ہی زحمت کرتے ہیں بلکہ اب تو بجائے اس طرح کے معاملات پر کارروائی ہو اسے میڈیا کو جاری کرنے کا رواج بن گیا ہے جس کا مقصد باہمی محاذ آرائی او رسہ کشی میں متحارب فریق کو دبائو میں لانے کا ممکنہ قدم نظر آتا ہے صوبے میں ہسپتالوں کے معاملات بگڑتے جارہے ہیں اور صحت کارڈ سے مفت علاج کی سہولت بھی عوام کے لئے ریلیف کا باعث نہیں بن رہا ہے ۔ اصلاح احوال پر جلد توجہ دی گئی تو عوام کی مشکلات اور محرومیوں کا بعد میں بھی ازالہ ممکن نہ ہو گا۔