Idhariya

ریاست کی مفاہمتی پالیسی

وزیر اعظم عمران خان نے ان بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت کے عزم کا اظہار کیا ہے جو ہتھیار ڈال کر ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کے حامی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ترک نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی دو ٹوک پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اب افغانستان کا مسئلہ لٹکنا دراصل انسانی بحران کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ افغان حکومت اپنے بجٹ کے لیے 75فیصد تک بیرونی امداد پر انحصار کرتی تھی، افغان عوام کو خطرہ ہے کہ طالبان کے بعد بیرونی امداد کا سلسلہ بند ہو جائے گا ۔ وزیر اعظم عمران خان کی خواہش ہے کہ ایسا سازگار ماحول پیدا کیا جائے کہ جس میں تنہا پاکستان کے طالبان کی حکومت کو قبول کرنے کی بجائے امریکہ ، چین ، یورپی یونین اور روس بھی طالبان کی حکومت کو قبول کر لے ، اگر وزیر اعظم کی یہ منصوبہ بندی عملی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے تو پھر وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو گا اورطالبان کی حکومت اپنے طور پر افغانستان کے اندرونی مسائل پر قابو پا لے گی۔
پاکستان کی سول و عسکری قیادت خطے کے مجموعی امن کو سامنے رکھ کر ایسی پالیسی اپنا رہی ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان سمیت پورے خطے میں امن کی ضمانت بنے گی، امریکہ کو افغانستان میں 20سالہ جنگ سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور ایسی سوچ اپنانے سے گریز کرنا چاہیے جو خطے میں دوبارہ خانہ جنگی کا باعث بنے۔ اس سارے پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اور پاکستان کو ناکردہ گناہوں کی سزا ملی ہے، نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا ، بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دیں ، نتیجتاً افغانستان کی جنگ پاکستان میں آ گئی ، ایک وقت ایسا بھی آیا جب پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر بم دھماکے ہونے لگے ، ایسی صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ امریکہ پاکستان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا لیکن امریکہ نے پاکستان پر اعتماد کرنے کی بجائے ہمیشہ بھارت کو پاکستان پر ترجیح دی، امریکہ کا پاکستان کے ساتھ یہ طرز عمل پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار تھا، آج پاکستان اگر اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی ترتیب دے رہا ہے تو اس کی ایک وجہ امریکہ کی پاکستان سے متعلق بداعتمادی بھی ہے۔ عسکریت پسندوں سے مذاکرات اور افغانستان سے متعلق آج پاکستان جو پالیسی ترتیب دے رہا ہے اگرچند سال پہلے اس پر غورکر لیا ہوتا اور امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ کی بجائے پرائی جنگ سمجھ لیا ہوتا تو ہمیں اس قدر نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ ”دیر آید درست آید” کے مصداق اگر اب ریاست نے بلوچ علیحدگی پسندوں اور دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف پالیسی تشکیل دی ہے تو اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ جو افراد پاکستان کے شہری ہیں اور بھارتی پروپیگنڈے میں آ کر وقتی طور پربہک گئے تھے اگر وہ ہتھیار ڈال کر ریاستی رٹ کو تسلیم کرتے ہیں اور سٹم کا حصہ بن کر باقاعدہ طور پر قومی دھارے میں آتے ہیں تو ایسے افراد کو کم از کم ایک موقع ضرور فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ دشمن کی سازشوںکو ناکام بنایا جا سکے، کیونکہ بھارت ہمیں داخلی طور پر کمزور کرنے کے لیے زر خریدوں کے ذریعے پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے ، گذشتہ دو دھائیوںمیں سیکورٹی فورسز داخلی دشمنوںسے لڑنے میں مصروف ہیں، جب ریاست پاکستان عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرے گی تو سب سے زیادہ بھارتی ایجنڈے پر زد پڑے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے تمام حلقے بشمول اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کا ساتھ دیں تاکہ ملک سے خانہ جنگی کی فضاء ختم ہو اور حکومت اپنی تمام تر توانائیاں و توجہ ملک کے حقیقی مسائل پر صرف کر سکے۔