وزیر اطلاعات کے قابل غورخیالات

ملک میں جہاں ایک جانب بعض فیصلوں اور اقدامات پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے وہاں دوسری جانب اس طرح کے اقدامات اور معاہدوں پر صائب رائے بھی سامنے آرہی ہے ہر دو کے درمیان فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ اصول اور قانون کے تقاضے کیا ہیں اور اس قسم کی مصلحت کوشی کے مزید نتائج کیا نکلیں گے اس موقع پروفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بجا طور کہا ہے کہ حکومت و ریاست انتہاپسندی سے لڑنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہے۔ہم نے ٹی ایل پی کے کیس میں دیکھا کہ کس طرح ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا اور یہ اس بم شیل کی نشاندہی کر رہا ہے جو ٹِک ٹِک کرکے بج رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر اس کے ادراک کے باوجود ایسا ہونے دینے کی وجوہات کیا ہیں حکومت اور ریاست اپنے فرائض کے حوالے سے تساہل کا شکا ر کیوں ہیں وفاقی وزیر نے درست سوال اٹھایا ہے کہ جو ریاست قانون کا نفاذ نہیں کرسکتی اس کے وجود پر سوال کھڑے ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک ہی نظرئیے کے سوا دوسری سوچ یا بات پر کفر کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔ اسلام توازن اور امن کی تعلیم دیتا ہے۔انہوں نے بڑا واضح نسخہ تجویزکیا ہے کہ انتہا پسندی کا بیانیہ سوسائٹی نے خود ٹھیک کرنا ہے’ مختلف نقطہ نظر ہوتے ہیں’ انتہاپسندانہ نقطہ نظربھی ہوتے ہیں’کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں حکومت کے ساتھ جنگ کرنی ہے’ اسے آپ نہیں روک سکتے لیکن اس کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ بندوقیں کلاشنکوفیں لے کر حکومت کے اوپر چڑھ پڑیں کہ آپ جنگ نہیں کرتے تو میں آپ سے جنگ کروں گا’ نقطہ نظر رکھنا اور اسے نافذ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ریاست کا ایک ہی کام ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ رائٹ آف وائلنس کسی ایک گروپ کے پاس نہیں جائے گا، تاکہ سوسائٹی میں نقطہ نظر کا تنوع رہے’ تنوع ہوگا تو انتہاپسندی نہیں ہوگی۔فواد چوہدری نے کہا کہ مذاکرات وزیراعظم ہائوس اور وزیر داخلہ کی سطح پر نہیں ہوتے’ تھانیدار مذاکرات کیا کرتا تھا’ تھانیدار کا انسٹی ٹیوشن ختم کردیا تو اس کے بعد اوپر کے عہدے ختم ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کی زندگیوں کو تب تک نہیں بچایا سکتے جب تک قانون کا نفاذ نہیں کرتے’ ریاست کا ایک ہی کام ہونا چاہئے وہ ہے قانون کا نفاذ’ جو ریاست قانون کانفاذ نہیں کرسکتی اس کے وجود پرسوال آجائے گا، اس صورت میں آپ خانہ جنگی کی طرف جائیں گے’ ریاست کا کنٹرول آپ کے اوپرسے ختم ہوتا جائے گا، گروپس سامنے آجائیں گے جو ریاستی کنٹرول پر قبضہ کرلیں گے۔وزیر اطلاعات نے جن امور کی تفصیل سے نشاندہی کی ہے یہی وہ عوامل ہیں جس کے باعث پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود عالمی برادری ہنوز پاکستان کے بارے میں اپنی غلط فہمیاں دور کرنے پر تیار نہیں جس کے باعث کاروبار وملازمت یہاں تک کہ سیرو سیاحت کے دروازے بھی پاکستانیوں کے لئے بمشکل کھلتے ہیں ان امور سے قطع نظر خودملک کے اندر تضادات کا باعث ماحول معاشرے کو پنپنے نہیں دیتا جب تک معاشرے میں شعور و آگہی نہیں آتی بہت سے پیچیدہ مسائل سے جاں چھڑانا مشکل ہی رہے گا ملک میں ہم آہنگی کی فضا ضروری ہے جو اس وقت ہی پیدا ہو گی جب ہر سطح پر ایسے اقدامات ہوں جس میں تفریق نہ ہو اور کوئی بھی فریق محض طاقت کے بل بوتے پر معاشرے اور ریاستی اداروں کو یرغمال نہ بنا سکے۔ مذہبی عناصر جس طرح کے جذباتی نعروں کو دبائواور اپنی بات منوانے کا ذریعہ بناتے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن ان کی اگر سرپرستی نہ ہوتو اس طرح کے جذباتی عناصر دھیرے دھیرے اعتدال کی راہ پر خود ہی آئیں گی لیکن جاری صورتحال برعکس ہے جو حیران کن امر ہے۔ وزیر اطلاعات حکومت کے ترجمان ہیں اس سطح پر ان خیالات کا ا ظہار اس لئے باعث تعجب ہے کہ اقدامات اور روک تھام کی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے قوی جذبات کے اظہار کا سہارا لیا جا رہا ہے جس سے صورتحال مزید معنی خیز ہوجاتی ہے بہرحال شرح صدر کے ساتھ انہوں نے جس قسم کی صورتحال کی نشاندہی کی ہے وہ قابل توجہ ہے وزیر اطلاعات نے تمام امور کی تفصیل سے نشاندہی کی ہے جن کا من حیث ا لقوم جائزہ لیا جانا چاہئے اور حکومت وریاست کوا ن عوامل سے نمٹنے میں اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہئے وزیر اطلاعات کے جامع اظہار خیال میں مطلب و معانی تلاش کرنا بھی مشکل نہیں حالات کا مکمل ادراک ہونے کے باوجود اصلاح کے اقدامات میں ناکامی کسی بڑی مشکل کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ان کے الفاظ کوصدابصحرا نہ جانے دیئے جائیں بلکہ بروقت انتباہ کو سمجھنے اور اصلاح پر توجہ مرکوز کرنا وقت کا تقاضا ہے جس میں تاخیر کی گنجائش نہیں اب وقت آگیا ہے کہ حالات کی روشنی میں ایسے یقینی اقدامات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم خود اپنے ہی ہاتھوں اور اپنے ہی معاملات میں پھنس کر نہ رہ جائیں راست طرز عمل اختیار کرکے ہی اس صورتحال سے نکلا جا سکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام