گیس بحران:”سلینڈرائز”کا نیا تجربہ

پاکستان میں ہر سال سردیاں شروع ہوتے ہی گیس کا شدید بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ اس بحران کی متعدد وجوہات ہیں، جو دہائیوں سے اپنی جگہ پر جوں کی توں موجود ہیں اور ہر حکومت کو ورثے میں ملتی چلی آ رہی ہیں۔ ان وجوہات کے پس منظر میں بھی بے شمار وجوہات کا ایک انبار کھڑا نظر آتا ہے مگر آج تک کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس کا کوئی قابل عمل اور جامع حل نکالے۔ تاحال یہ بحران جاری ہے اور موجودہ حکومت اس کو ہینڈل کرنے کے لیے اپنے تئیں کوششوں میں مصروف ہے۔ حکومت نے نجی بجلی گھروں کی گیس بند کر دی ہے۔ وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے اس کی وہی پرانی وجوہات پیش کی ہیں کہ سردیوں میں ہیٹرز اور گیزرکی وجہ سے شارٹ فال بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے اس بحران کی ایک وجہ یہ بھی بتائی ہے کہ ملک میں گیس سپلائی کے دو الگ الگ سرکٹس چل رہے ہیں۔ پہلی وجہ تو شاید عام صارفین کی سمجھ میں آجائے مگر دوسری وجہ خالصتاً تکنیکی ہے، جو لوگوں کے سر سے گزرے گی،اس طرح شکوک وشبہات کی ایک نئی فضاء پیدا ہوگی۔ یاد رہے پاکستان میں 70فیصد صارفین LPG یا متبادل ذرائع استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے ملکی تاریخ میں ایل این جی کا سب سے کم نرخ پر معاہدہ کیا ہے،اس سے 10سال میں کئی سو ارب روپے کا حکومت کو فائدہ ہو گا۔ سوئی سدرن کے مطابق دسمبر سے فروری تک گیس سپلائی کے مسائل زیادہ ہو جاتے ہیں، اس لیے ایسا کرنا مجبوری تھا۔وزیر توانائی نے ورچوئل ایل این جی پائپ لائن پرکام کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ اس نئی ایل این جی ٹیکنالوجی کو”سلینڈرائز”کیا جا رہا ہے، یہ ایل پی جی کے سلینڈر سے کافی کم قیمت پر دستیاب ہوگی۔ پاکستان میں لوکل گیس پائپ لائن کا نیٹ ورک بہت پھیلا دیا گیا ہے،اس لیے اس ایل این جی سے بھی استفادہ ہو سکے گا۔ حماد اظہر کے مطابق ایران دوسرا بڑا گیس پائپ لائن کا مالک ہے وہاں بھی دیہاتوں میں پائپ گیس کی سہولت نہیں جبکہ پاکستان میں28فیصد گھرانوں کے پاس لوکل گیس کے کنکشن ہیں۔ سترفیصد صارفین کے پاس لوکل گیس کی سہولت ہی نہیں۔ یہ سترفیصد صارفین ایل پی جی یا دیگر متبادل ذرائع استعمال کرتے ہیں۔اس حوالے سے انہوں نے غلط فہمی کوکلیئرکرنے کی کوشش کی ہے۔مگر وفاقی وزیر کی سب توجیحات اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ چند وجوہ کی بنا پر گیس بحران کا مستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، وزراء کی طرف سے یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ سردیوں میں استعمال بڑھ جانے کی وجہ سے گیس بحران در پیش ہوتا ہے، حکومت کی طرف سے نجی بجلی گھروںکی گیس بند کر کے گیس بحران کا حل پیش کیا گیا ہے، اس کا نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ سردیوں کے موسم میں طویل لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے، جس سے عوام پریشان ہیں،حکومت کو چاہئے کہ گیس بحران کا ایسا حل پیش کرے جو حقیقی معنوںمیں حل ہو۔ جب سے سوئی گیس دریافت ہوئی ہے تب سے لیکر آج تک مسلسل استعمال ہو رہی ہے اس دوران کئی بار انکشاف ہو چکا ہے کہ سوئی میںگیس کے ذخائر کم ہو رہے ہیں ہمیں نئے ذخائر دریافت کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے یا پڑوسی ملک کے ساتھ گیس معاہدہ ہونا چاہئے اس مقصد کیلئے پیپلزپارٹی کی حکومت نے ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ کیا مگر بیرونی پابندیوں کی وجہ سے یہ معاہدہ کاغذات تک محدود رہا، حالانکہ ایران اپنے حصے کا کام کر چکا تھا مگر پاکستان کی طرف سے لیت و لعل سے کام لیا گیا اور اب اس معاہدے کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ ایران کی طرح ازبکستان اور آذربائیجان سے گیس حاصل کی جا سکتی ہے مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ ضرورت پوری کرنے کیلئے ایل ایج جی پر انحصار کیا جاتا ہے لیکن وہ اس قدر مہنگی ہوتی ہے کہ عوام کیلئے اسے افورڈ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ حکومت نے گیس بحران پیش نظر نیا تجربہ کرنے جا رہی ہے، پائپ کی بجائے سلنڈر میں گیس دینے کا مقصد یہ ہوگا کہ پائپ بچھانے پر اربوں روپے کی لاگت ضائع ہو جائے گی، اور سلنڈر خریدنے پر نئے سرے سے لاگت آئے گی، المیہ یہ ہے کہ ہر کچھ عرصے کے بعد ایک نیا تجربہ کیا جاتا ہے جس سے عوام تختہ مشق بن کر رہ گئے ہیں،یہ بات طے ہے کہ موجودہ حکومت ہر بحران اور ہر درپیش مسئلے کو اسی وقت حل کرنے کا سوچتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ گیس فراہمی کے مسئلے سے متعلق اگر چھ ماہ پہلے بھاگ دوڑ شروع کی ہوتی تو اس وقت انڈسٹری کے ساتھ ساتھ گھریلو صارفین کی ضرورتیں بھی احسن طریقے سے پوری ہو رہی ہوتیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گیس بحران کو انرجی بحران میں شامل کیا جائے اور اس کا مستقل حل تلاش کیا جائے جس کا سردی یا گرمی سے کوئی تعلق نہ ہو، اگر آج اس اہم مسئلے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو آنے والے سالوںمیں گیس بحران سنگین ہو جائے گا جو نظام زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دے گا۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام