بلدیاتی انتخابات کا سبق

بلدیاتی انتخابات کا سبق

حتمی سرکاری نتائج سے قطع نظر غیر حتمی نتائج پر اثر انداز ہونے والا سب سے بڑا عنصر میرٹ پر پارٹی ٹکٹوں کاعدم اجراء باہم اختلافات اور پارٹی نشان سے ہٹ کر انتخابی نشان پر انتخاب لڑنا سامنے آیا ہے ۔ حکومتی امیدواروں کو مہنگائی مار گئی مگر محولہ بالا عوامل کا بھی بڑا عمل دخل نظرانداز کرنا ممکن نہیں ایسا لگتا ہے کہ بلائوں نے انوری کا گھر دیکھ لیا ہے بہرحال غیر حتمی نتائج بہت زیادہ غیر متوقع نہیں لیکن بعض خاص حلقوں پر ہونے والی بعض افراد کی بڑی کوششیں تگ ودو اور جتن بہرحال لاحاصل رہیں جس کی وجوہات محولہ وجوہات سے مماثل اور کچھ دیگر بھی ہو سکتی ہیں اس کے باوجود اس مرحلے پر بہرحال ایک ایسی عمومی فضا جیت اور ہار کی تو نظر نہیں آئی البتہ اس کے واضح مظاہر دوسرے دور میں زیادہ واضح اور اس کے اثرات آئندہ عام انتخابات میں نظر آنا فطری امر ہوگا۔ عوام نے انتخابی مہم میں تو زیادہ دلچسپی کا ا ظہار نہیں کیا تھا لیکن حلقوں کی محدودیت اور امیدواروں کے براہ راست روابط کے باعث لوگوں نے بالاخر ووٹ دینے میں دلچسپی کا اظہار کیا سب سے خوش آئند امر ضم قبائلی اضلاع کے عوام کی انتخابی عمل میں پر شوق و پرجوش شرکت ہے ۔ایک آدھ جگہ برعکس صورتحال بھی نظر آئی جو زیادہ قابل ذکر نہیں صوبے کے سترہ اضلاع کے بلدیاتی ا نتخابات مزید پررونق ہوسکتے تھے بشرطیکہ معروف سیاسی جماعتوں کی جانب سے میرٹ پرٹکٹ کے فیصلے کئے جاتے ان کی کامیابی کی صورتحال بھی مختلف ہوسکتی تھی اگر وہ میرٹ پر فیصلہ کرتے اور اپنے ہی ہم جماعت آزاد امیدوار کی صورت میں مد مقابل نہ آتے جن کے مجموعی ووٹوں کو ملانے سے کامیابی کا پلڑا واضح طور پر ان کی طرف جھک جاتا۔ بہرحال سیاسی فیصلوں میں غلطی کی تو گنجائش ہوتی ہے مگر جان بوجھ کر کئے گئے فیصلے اقرباء پروری اور مفاد پرستانہ وآامرانہ فیصلے کبھی لاولد نہیں ہوتے ان کے نتائج سے خواہ مخواہ واسطہ پڑتا ہے اس کی واضح مثال سامنے آچکی ہے اور تقریباً ہر انتخابات میں سامنے آئی ہے اس کے باوجود بھیڑ چال کا عمل رکتا نہیں صوبائی دارالحکومت پشاور کے میئر کا تاج کس کے سر سجتا ہے اس کا فیصلہ دم تحریر ہونا باقی ہے لیکن پانچ ممبران قومی اسمبلی اور گیارہ ممبران صوبائی اسمبلی اور ہیوی ویٹ عہدیدارروں کی موجودگی میں حکمران جماعت کو جس مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بصورت کامیابی بھی ان کو اس امر پر غور کرنا پڑے گا کہ انہیں اس قدر مشکل کا سامنا کیوں کرنا پڑا ہمارے تئیں اس کی ایک وجہ صوبائی دارالحکومت پشاور کو اس کی مرکزیت دارالخلافہ اور پورے خیبر پختونخوا کے شہریوں کی آبادی و نمائندگی رکھنے کے باوجود حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے نظر انداز کر دینا ہے احیائے پشاور پروگرام سے قطع نظر صوبے کے مسند اقتدار کے متمکن نے شہر کا دورہ اور عوامی رابطہ کب اور کتنے بار کرچکے ہیں اس کا ایک جائزہ لیا جانا چاہئے شہر اقتدار پر بعینہ یہی کیفیت بلکہ اس سے زیادہ عہدے اور وزارتیں رکھنے والی جماعت کو بھی ماضی میں یہاں کے عوام نے نظر انداز کرنے کی پاداش میں سخت ردعمل دے چکے ہیں حالیہ بلدیاتی انتخابات کے حتمی نتائج اور ہار اور جیت سے قطع نظر فرزندان پشاور کو مواقع دینے شہریوں کے مسائل سمجھنے اور شہر کی تعمیر و ترقی پر توجہ دینے کا یہ آخری موقع ہے حکومت کو باقی مدت اقتدار صوبے کی اس مرکزی اور پورے صوبے کے عوام کے اجتماعی شہر ہونے کا ادراک واحساس کرنا ہوگا اس کے بعد ہی عوام سے حمایت کی توقع کی جا سکے گی بصورت دیگرحالات ونتائج مختلف ہوسکتے ہیں اور شہری اپنے ماضی کے ردعمل اور فیصلے کو عین ممکن طورپر دہرا سکتے ہیں ۔ موروثی اور خاندانی سیاست کو اب دفن ہو جانا چاہئے اور جملہ سیاسی جماعتوں کو خاندان ‘وراثت ‘ روپیہ پیسہ اور دیگر تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اہل افراد کو عوامی نمائندگی کے لئے پیش کرنا چاہئے حالات حکمران جماعت کے لئے خاص طور پر مشکل وقت کی نوید سنا رہے ہیں دوسری مرتبہ بھی تاریخی اعتماد اب عدم اعتماد کی دہلیز پر ہے جس کا ادراک اور بے لگام ہوتے حالات کی باگیں کھینچنے اور سنبھالنے کی سعی خود ان کے اپنے مفاد میں ہے حتمی نتیجے میں میئرپشاور کا تاج جس کے سر سجے اس شہر کے عوام کی ان سے توقعات کی وابستگی فطری امر ہے جن پر پورا اترنے کے لئے ضروری ہو گا کہ دیانتداری ‘ خلوص اور پورے لگن سے کام کیا جائے اور خود کو حقیقی معنوں میں عوام کا منتخب نمائندہ ثابت کیا جائے۔یہ شہر اپنے خادمین کوکبھی نہیں بھلاتی چاچا یونس اور سرفرار خان مجسٹریٹ ‘ ملک سعد شہید کو آج بھی اگر لوگ یاد کرتے ہیں تو مئیر کے بااختیار عہدے پر فائز شخصیت کے لئے اپنا بہتر امیج بنانا کیا مشکل ہوگا؟۔