مشرقیات

خط لکھنے کے زمانے کب کے گئے اب تو کاغذ کا استعمال بھی بڑی حد تک متروک ہو چکاہے، عاشقوں تک نے موبائل ٹیکنالوجی سے استفادہ شروع کیا ہوا ہے ایسے میں کوئی خط سرپرائز کے نام پر مل جائے تو سرپرائر ہی ہوا نا۔پھر بھی یار لوگ نہ جانے کیوں کپتان کو خط ملتے ہی حیران ہوئے نہ پریشان الٹا انہوں نے اسے طنز ومزاح کا نشانہ بنا لیا ہے۔بقول کپتان کے سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور اسی زمانے کے اسیروں نے ان کے خط کے انکشا ف کو لے کر وہ انت مچائی ہوئی ہے کہ مخالف تو چھوڑیںکپتان کے اپنے حامی بھی اس خط بارے شکوک کا شکار ہو چکے ہیں اس لیے کم ہی ایسے انصافی ہیں جو اپنے کپتان کا خط کے حوالے سے دفاع کرنے کے لیے سامنے آئے ،بہرحال لگتا یہی ہے کہ خط کا وار خطا ہی گیا ہے اور اب کپتان کو عدم اعتماد سے خود کو بچانے کے لیے چوہدریوں کے دل کی مراد پوری کرنی ہوگی ،سنا ہے چوہدریوں کو دونوں فریق پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے پر تیار ہیں اورایسا ہو گیا تو عید سے قبل چوہدریوں کی عید ہی سمجھ لیں،اگر پگ کپتان نے اپنے دست مبارک سے خود چوہدریوں کے سر پر رکھی تو پھر ظاہر ہے مرکز میں بھی کپتان کی اتحادی جماعتوں سے اپوزیشن کو ہاتھ دھونے پڑیں گے بصورت دیگر کپتان جانے اور خط یا ان کی خطا۔کہنے والوں کے بقول امیر ترین کو ابھی راضی کرنا رہتاہے وہ گجرات کے چوہدریوںکی وزارت اعلیٰ کے حامی یا مخالف اس کا جلد ہی لگ پتا جائے گا،ایسے ہی ان منحرف ارکان میں سے سب کا تعلق بہرحال امیر ترین کے گرو پ سے نہیں ہے اب اللہ ہی جانے وہ کس کے کہنے پر یوٹرن لیں گے یا خط لہرانے قبل کپتان کی گھر واپسی کے لیے کی گئی اپیل سے ان کا دل پسیج جائے گا۔لگتا ہے ایک بار پھر پانسا پلٹنے والا ہے اور کپتان کی بجائے اپوزیشن کو اب172بندے پورے کرنے کا چیلنج درپیش ہو سکتا ہے ،ادھر مولانا اپنے طالبان کے ساتھ اسلام آباد میں دھونی رما کے بیٹھے ہوئے ہیں لگتا ہے وہ اپنے رضاکاروں کو اپنے ہی نہیں اپوزیشن اور حکومت کے منحرف ارکان کی سیکیورٹی کے لیے اسلام آباد پہنچا کر اب ان کے ذریعے دبائو برقرار رکھیں گے ،یہ بھی یا د رہے کہ قومی اسمبلی میں ابھی تحریک عدم اعتماد پیش ہی نہیں کی گئی ہے یہ جب پیش ہو گی تو پھر کم ازکم تین اور زیادہ سے زیادہ سات دن کے اند اس پر رائے شماری ہوگی اس ایک ہفتے کے دوران پانسہ کس کے حق میں پلٹتا ہے یہ ہم نے دیکھنا ہے اس لیے کوئی بھی پیشنگوئی سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتی وہ کیا کہا ہے اپنے علامہ صاحب نے
پلٹنا چھپٹنا چھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
علامہ صاحب یہ شعر ہمارے شاہیں صفت سیاستدانوں کے بارے میں ہی فرما گئے تھے ہما شما’ عوام’کس کھیت کی مولی ہیں؟

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں