لانگ مارچ سے جڑا تحریک انصاف کا مستقبل

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بالآخر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے، حالانکہ اس سے قبل قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان اندرون خانہ کوئی سمجھوتہ طے پا گیا ہے جس کے تحت عمران خان کچھ عرصہ تک خاموش رہیں گے، مگر لانگ مارچ کے اعلان نے ان قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ جمعہ کے روز لاہور کے لبرٹی چوک سے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ مارچ کی قیادت میں خود کروں گا، یہ حقیقی آزادی مارچ ہے اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے، لاہور کے لبرٹی چوک سے عوام کے جم غفیر کے ہمراہ براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد پہنچوں گا، یہ تاریخ کا سب سے بڑا اور پُرامن لانگ مارچ ہو گا۔ لانگ مارچ کے حوالے سے بنیادی سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ جب کوئی ٹائم فریم ہی نہیں ہے تو کارکنان کس تیاری کے ساتھ اسلام آباد آئیں گے؟ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس بارے لانگ مارچ میں شریک لوگوں کی تعداد کے بعد ہی کچھ کہا جا سکے گا، تاہم یہ امر واضح ہے کہ لانگ مارچ کی ٹائمنگ ملکی معیشت کیلئے خطرناک ثابت ہو گی، کیونکہ ملک معاشی بحران کا شکار ہے سیلاب کی وجہ سے 40ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اگر ایسے حالات میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے تو معیشت مزید تباہی کا شکار ہو جائے گی، عام آدمی کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ احتجاج سیاسی جماعتوں کا حق ہے مگر دارالحکومت کا گھیراؤ کر کے حکومت ہٹانے کا طریقہ غلط ہے، عمران خان اس سے پہلے 2014ء میں حکومت کو ہٹانے کیلئے طویل ترین دھرنا دے چکے ہیں، کیا اس وقت حکومت ختم ہو گئی تھی؟ اب اگر وہ دوبارہ غیر جمہوری طریقہ کار اپنا رہے ہیں تو اس کے نتائج بھی ماضی سے مختلف نہ ہوں گے۔ جہاں تک تعلق ہے تحریک انصاف کی حکومت گرانے کا تو ہماری دانست میں اپوزیشن جماعتوں کے اس اقدام کی بھی حمایت نہیں کی جا سکتی ہے تاہم تحریک عدم اعتماد غیر جمہوری راستہ نہیں ہے اگر عمران خان کو موجودہ حکومت پر تحفظات ہیں تو اس کے دو ہی طریقہ کار ہیں ایک یہ کہ عام انتخابات تک انتظار کریں اور الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار میں جگہ بنائیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس طرح اتحادی جماعتوں نے ایکا کر کے تحریک انصاف کو اقتدار سے آؤٹ کیا اسی طرح تحریک انصاف بھی نمبر گیم پورے کر کے اتحادی حکومت کو اقتدار سے باہر کر دے، عمران خان مگر آئینی راستہ اختیار کرنے کی بجائے غیر آئینی راستے پر چل رہے ہیں، نہ صرف یہ کہ غیر جمہوری راستہ ہے بلکہ ایسے اقدام کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔
عمران خان کی مقبولیت سے انکار ممکن نہیں، ضمنی الیکشن میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے، جلسوں کے اندر ہزاروں افراد کی شرکت بھی عمران خان کی مقبولیت کی گواہی دے رہی ہے کہ عوام کی بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے، لیکن اس مقبولیت سے جو نتیجہ عمران خان اخذ کرنا چاہ رہے ہیں وہ درست نہیں ہے کیونکہ محض مقبولیت کی بنا پر کسی کو اقتدار نہیں دیا جا سکتا ہے، اقتدار میں آنے کا ایک طریقہ کار ہے، انتخابات میں جو جماعت کامیاب ہو گی وہی حکومت کیلئے اہل ہو گی، جمہوری ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جمہوری ممالک میں تو یہاں تک خیال رکھا جاتا ہے کہ جو جماعت کامیاب ہو اپوزیشن جماعتیں اس کے مینڈیٹ کا خیال رکھتی ہیں اور اسے حق حکمرانی دے کر آئینی مدت پوری ہونے کا انتظار کرتی ہیں۔ بدقستمی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو بھی سیاسی جماعت عوام کے
ووٹوں سے کامیاب ہو کر آتی ہے اسے یکسوئی کے ساتھ حکمرانی کا حق نہیں دیا جاتا، یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ڈلیور کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے، اس روش کو بدلنا ہو گا۔ جس طرح پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے متعدد بار حکمرانی کی ہے اسی طرح تحریک انصاف بھی دوبارہ بلکہ سہہ بارہ حکومت میں آ سکتی ہے، تاہم اس مقصد کیلئے عمران خان کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظار کرنا ہو گا، عمران خان مگر انتظار کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں، یہ عجلت بازی ایک لیڈر کو زیب نہیں دیتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ہاں حکمرانی سے زیادہ ووٹ بینک اور مستقبل کو اہمیت دی جاتی ہے، دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت اپنی اگلی نسل کو سیاست میں انٹر کر چکی ہیں، بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ بنوا کر پوری دنیا کے دورے کرائے جا رہے ہیں تاکہ کل کلاں اگر وہ وزیراعظم منتخب ہوتے ہیں تو ان کی سیاسی تربیت پوری ہو۔ اسی طرح مریم نواز کو پارٹی کے امور سونپے گئے ہیں اور تنظیم سازی کے حوالے سے انہیں ذمہ داریاں دی گئی ہیں، ایک سیاسی ورکر کیلئے عہدے سے زیادہ اپنی جماعت کی مضبوطی ہوتی ہے اس حوالے سے جب ہم عمران خان کے طرز سیاست کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کئی اعتبار سے کمزوریاں نظر آتی ہیں، قابل غور عمل یہ ہے کہ اگر لانگ مارچ میں توقع سے کم لوگ شریک ہوتے ہیں یا حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے تحت لوگوں کو لانگ مارچ میں شریک ہونے سے روک دیا جاتا ہے تو عمران خان کے پاس اگلا منصوبہ کیا ہو گا؟ عمران خان کے پاس بظاہر دوسرا کوئی منصوبہ نہیں ہے انہیں بہر طور اگلے الیکشن تک انتظار کرنا پڑے گا لیکن صورتحال یہ ہو گی کہ لانگ مارچ کی ناکامی کی وجہ سے ان کی سیاسی ساکھ بری طرح متاثر ہو چکی ہو گی اگر تحریک اس ساکھ کے ساتھ عام انتخابات میں جاتی ہے تو الیکشن کے نتائج عمران خان کی توقع کے خلاف آ سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  گیس چوری اور محکمے کی بے خبری