معیاری ادویات کی اشد ضرورت

جیسا کہ ایک دوا کسی بیماری میں مبتلا فرد کا علاج کرتی ہے، لیکن اگر وہ مریض کو ٹھیک کرنے کی بجائے نقصان دہ اثرات کا باعث بنتی ہے تو کیا ہوگا؟ کیا آپ نے کبھی اس بارے میں سو چا ہے ؟ بدقسمتی سے پاکستان میں زیادہ تر ادویہ ساز کمپنیوں کی جانب سے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (SOPs) پر عمل کرنے اور کوالٹی کنٹرول سمیت ادویات کی افادیت کو یقینی بنانے پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ،جو کہ ہمارے صحیح اور دیرپا علاج نہ ہونے کی وجوہا ت میں سے ایک بنیادی اور اہم وجہ ہے۔چونکہ دوا ہماری زندگی میں بہت نمایاں اہمیت رکھتی ہے اور خاص کرکسی بیماری کی صورت میں یہ ہماری ایک بنیادی ضرورت بن جا تی ہے، لہٰذا واضح رہے کہ اس کی تیاری عالمی سطح پر تجویز کردہ طریقہ کا ر اور مخصوص اصولوں اور ضوابط کے مطابق کی جائے جبکہ اس بات پر بھی خصوصی توجہ دی جائے کہ ادویات کی تیاری میں مطلوبہ اجزاء خاص معیار کے مطابق استعمال کئے جائیںکیونکہ صرف ایک معیاری دوا ہی انسانی صحت کی ضرورت کو حقیقی معنوں میں پورا کر سکتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ادویات کی تیاری کے رائج طریقہ کار کے ساتھ ساتھ درکار خام مال کے معیار کو بھی خصوصی اہمیت دی جاتی ہے جبکہ کم معیاری خام مال کے استعمال اور مقررہ طریقوں اور قواعد کی خلاف ورزی پر کسی طور سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ تاہم، یہاں یہ ذکر کرنا انتہائی مناسب ہے کہ ہمارے ملک میں زیادہ تر مقامی ا دویہ ساز فیکٹریوں میں کم درجے کے خام مال اور ناقص کوالٹی کنٹرول کے علاوہ کمتر معیار دیکھنے کو ملتا ہے۔کئی فارما اور صحت کے ماہرین کے مطابق، مقامی پاکستانی ادویات اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والی مصنوعات کی صورتحال زیادہ تر دگرگوں ہے کیونکہ ان میں سے تقریباً 90 فیصد غیر بھروسہ مند، پست اور کم معیار کی ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دوائیوں کے منفی ردعمل کے بہت سے کیسز ہر سال میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں غیر معیاری ادویات کے استعمال اور دوائیوں کے منفی ردعمل کی وجہ سے ہر سال ہزاروں مریض لقمہ اجل بن جاتے ہیں جس کی درست رپورٹنگ، نگرانی اور تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ اگلی بار ادویات کی تیاری میں بہتری لائی جا سکے، تاہم بدقسمتی سے پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی ایڈوانس رپورٹنگ سسٹم موجود نہیں کہ مذکورہ کیسز کو منظم سائنسی طریقے سے مانیٹر کیا جا سکے۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے حال ہی میں اس سلسلے میں نیشنل فارما کوویجیلنس سینٹر (این پی سی) قائم کیا ہے جو اس مقصد کی جانب ایک بہت اچھا قدم ہوگا، اگر اسے صحیح طریقے سے شروع کیا جائے، تاہم ابھی ہمیں ایک طویل سفر طے کرنا ہے، اس لئے،این پی سی کی اولین توجہ مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے ایک منظم طریقہ کار کے تحت موجودہ صورتحال سے نمٹنے پر ہونی چاہئے۔اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ عوام بالخصوص مریض صرف ملٹی نیشنل اور بڑی قومی اور قابل اعتماد کمپنیوں کی ادویات خرید کر استعمال کریں،کیونکہ اس موجودہ نازک صورتحال میں ہم اپنے علاج کیلئے غیر معیاری مقامی ادویات اور صحت کی دیکھ بھال کی مصنوعات کا استعمال کرکے سمجھوتہ کرسکتے ہیں نہ ہی اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں
اس لئے حکومت اور متعلقہ حکام بالخصوص ڈرپ کو اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ا دویہ سازی کی صنعت پر کڑی نظر رکھی جا سکے اوریہ یقینی بنایا جا سکے کہ تمام فارما کمپنیاں خاص کر مقامی کمپنیاں متعلقہ قواعد اور رائج طریقہ کار کی خلاف ورزی نہ کریں تو یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ اس تناظر میں میڈیا کے کردار کو بھی کسی طر ح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا تمام میڈیا پلیٹ فارمز (اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا) اوپر زیر بحث موضوع کے بارے میں آگاہی پیدا کریں اور عوام الناس کو پست اور اعلیٰ معیار کی ادویات کے درمیان فرق سے آگاہ اور باخبر کرنے کیلئے خصوصی ایڈیشنز، سیگمنٹس، پروگرامز اور شوز چلائیں تاکہ پاکستانی معاشرے کو اس حوالے سے ترقی یافتہ اور خوشحال بنایا جایا سکے۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم