ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت

اگرچہ سیاستدانوں کی طرف سے فوج پرتنقید نئی بات نہیں لیکن اس وقت حدود و قیود سے ہٹ کر جس طرح پاک فوج کی قیادت اور افسران کو نام لے کر نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ خطرناک رجحان ہے فوج سے سیاسی معاملات میں مداخلت ایک عام اور معمول کا الزام چلا آررہا ہے ملک میں مارشل لاء بھی لگتے رہے ہیں سول قیادت اور عسکری قیادت میں ان بن بھی رہی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود کبھی کسی کور کمانڈر کے گھر کے باہر نعرے بازی نہیں کی گئی بہرحال ان تمام معاملات سے قطع نظر اب جبکہ فوج نے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف اور غیر معمولی پریس کانفرنس میں قوم کے سامنے آکر فوج اپنی پیشہ ورانہ اور حقیقی ذمہ داریوں تک محدود ہونے کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر چکی ہے اس کے باوجود الزام تراشی کا سلسلہ بند نہ ہونا تشویش کا حامل معاملہ ہے ۔عسکری قیادت کم ہی کسی معاملے پر ردعمل دیا کرتی ہے لیکن حالات کاتقاضا گردانتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز(آئی ایس پی آر)کی جانب سے عمران خان کے بیان پر ردعمل دینا ضروری سمجھا گیا۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے ادارے کے خلاف بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات یکسر ناقابل قبول ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے بالخصوص ایک اعلیٰ فوجی افسر کے خلاف بے بنیاد الزامات ناقابل قبول ہیں۔ پاک فوج ایک انتہائی پیشہ ور اور نظم و ضبط کی حامل فوج ہے۔ پاک فوج کا ایک مضبوط اور انتہائی موثر اندرونی احتسابی نظام ہے ‘پاک فوج کو انتہائی پیشہ ورانہ ہونے پر خود پر فخر ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق اگر مفاد پرستوں کی جانب سے فضول الزامات کے ذریعے اس کے عہدیداروں کی عزت’ حفاظت اور وقار کو داغدار کیا جا رہا ہے تو یہ ادارہ اپنے افسروں اور سپاہیوں کی حفاظت کرے گا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ادارے ‘اہلکاروں پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل قابل مذمت ہے’ کسی کو بھی ادارے یا اس کے سپاہیوں کی بے عزتی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔آئی ایس پی آرکے مطابق اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے’ بغیر کسی ثبوت کے ادارے اور اس کے اہلکاروں کے خلاف ہتک عزت اور جھوٹے الزامات کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جائے۔یہ صورتحال جہاں پاک فوج کے لئے نزاکت کی حامل ہے ہاں حکومت بھی گویم مشکل و نہ گویم مشکل کا شکار نظر آتی ہے حکومت کی جانب سے کسی اقدام سے قبل ہی ان کے فوجی قیادت سے تعلقات اور معاملات کے حوالے سے جن آراء کا اظہار کیا جارہا ہے اگر حکومت ایکشن لیتی ہے اور ایکشن لینے پر مجبور ہوجاتی ہے اور قانونی کارروائی شروع ہوتی ہے تو اسے کیا نام دیا جائے گااس کا اندازہ مشکل نہیں البتہ تمام تر مشکلات کے باوجود اب کھلے دہن بند کرنے کے لئے قانون کا سہارا لینا ہی ٹھہر گیا ہے اگر اصلاح کی توقع ہوتی او ریہ سلسلہ سمجھانے اور دلیل سے ایسا ہوسکتا تو یہ نوبت نہ آتی اس صورتحال میں خاص طور پر مسلح افواج کے کمانڈر انچیف صدرمملکت کا کردار اہمیت کا حامل ہے اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملکی افواج کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈے کا نوٹس لیں بطور سربراہ ریاست صدر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں کردارادا کریں اورچونکہ ان کا تعلق بھی محولہ سیاسی جماعت سے رہا ہے اس بناء پر بھی وہ اس مہم چلانے والوں کو احساس دلانے کے لئے موزوں شخصیت ہیں تاکہ یہ سلسلہ کہیں نہ کہیں رک جائے ان کے بعد چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نفرت انگیزی کا نوٹس لے حکومت کی جانب سے اس ضمن میں کسی کردار کو انتقام اور مخالفین کو کچلنے کے طور پرپیش کیا جائے گا لیکن اگرمحولہ دو عہدیدار بالفرض محال کردار ادا نہ کرسکے تو اس کے بعد کی جو صورتحال ہوگی اس میں کشیدگی میں اضافہ اور طاقت کااستعمال سامنے آسکتا ہے جو کسی بھی فریق کے لئے بہتر صورت نہ ہو گی پاک فوج کسی حکومت کی نہیں ریاست اور عوام کی ہے اور فرزندان پاکستان کی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں جزوی طورپر شکایات اور گلہ مندی تو ممکن ہے لیکن بحیثیت ادارہ اس کا احترام ہوناچاہئے سیاسی مقاصد کے لئے الزام تراشی اور تعریف و تحسین دونوں ہی کی گنجائش نہیں اس لئے کہ سیاسی طور پرکی گئی تحسین بھی بے وجہ نہیں کہلائی جا سکتی جبکہ آئینی کردار پر محدود ہونے کی پاداش میں اسے نشانہ بنانے کی ملک کے عوام اجازت نہیں دے سکتے بہتر ہو گا کہ یہ سلسلہ یہیں ختم ہو اور باقی معاملات بھی احسن طریقے سے طے ہوں۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں