کشمیر پر چین کی بڑھتی ہوئی سرد مہری

وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ ٔ چین کے بعد سنتالیس صفحات پر مبنی جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ پاکستان اور چین کے روایتی تعلقات کا مظہر ہے ۔اس اعلامئے میں دونوں ملکوں کے دوستی اور تعاون کے امکانات کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کو جاری رکھنے اور توسیع دینے کی بات بھی پرزور انداز میں دہرائی گئی ہے ۔ اس اعلامیے کے بعد چین کی طرف سے کچھ مالی تعاون کی خبریں بھی آنے لگی ہیں گویا کہ چین نے پاکستان کے موجودہ معاشی بحران سے لاتعلق رہنے کا رویہ تبدیل کر دیا ہے ۔اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہو سکتی ہیں جو چند ماہ میں سامنے آئیں گی کیونکہ حالیہ چند ماہ میں چین کی ناراضگی کا پیمانہ مختلف حوالوں سے چھلکتا نظر آرہا تھا ۔چینی وزیر خارجہ کا ایران میں یہ کہنا کہ ایران کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک ٹیلی فون کال پر اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا اور چین کے دفتر خارجہ کا آزادکشمیر کے لئے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی اصطلاح کا استعمال اسی بات کی جانب اشارہ کر رہے تھے ۔اب چین اور پاکستان کے درمیان پس پردہ کچھ مثبت باتیں ہوئی ہیں جن کا مظہر یہ اعلامیہ ہے مگر اس اعلامیے میں جو بات دھیمے سُروں میں بیان کی گئی ہے وہ کشمیر ہے ۔اعلامئے کے مطابق پاکستان نے چینی قیادت کو کشمیر پر بریف کیا جس کے بعد دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے تحت پرامن انداز سے حل ہونا چاہئے ۔یہ اعلامیہ پاک چین روایتی دوستی اور تعلق کا مظہر تو ضرور ہے مگر یہ کشمیر کے حوالے سے چین کا اس جوش وجذبے اور عزم سے خالی ہے جس نے پانچ اگست2019کے بھارت کے یک طرفہ قدم سے جنم لیا تھا ۔یہ اعلامیہ پاکستان کے سٹریٹجک مفادات اورآزادی وخودمختار ی کے عزم کے ساتھ ساتھ کشمیر کے زودار تذکرے سے خالی ہے ۔گزشتہ چند برسوں سے چین اور پاکستان کے تمام اعلامیوں میں پانچ اگست کے فیصلے کو یکطرفہ قراردے کراس کی مخالفت کی جاتی تھی ۔عمران خان اور شی چن پنگ کے مشترکہ اعلامیہ میں پانچ اگست کے یک طرفہ اقدام کی کھلی مخالفت شامل تھی مگر اس بار پانچ اگست کو بھولی بسری یاد بنایا گیا یوں لگتا ہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات روایتی دائرے میں واپس آگئے ہیں ۔پاکستان میں حالیہ رجیم چینج کے بعد امریکہ اور پاکستان کے ساتھ چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کا ازسر نو جائز ہ لیا ہے ۔پاکستان نے اپنے رجحان کا پلڑا چین سے دوبار ہ امریکہ کی طرف کر دیا ہے۔ماضی قریب کے اعلامیوں میں چین کی طرف سے پاکستان کی سلامتی اور خودمختار کے تحفظ اور کشمیر پانچ اگست کے یکطرفہ قدم کی مخالفت کا واضح اظہار ملتا تھا ۔موجودہ اعلامیہ میں سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند پاک چین دوستی کا انداز تو ملتا ہے مگر ان دوباتوں کا ذکر نہیں ۔اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کا جادو اپنا کام دکھا چکا ہے اور پاکستان اورچین کے تعلقات واپس دوطرفہ حد تک آچکے ہیں ۔پاکستان اور چین میں امریکہ کے لئے تشویش کا پہلو اس وقت شروع ہوتا ہے جب اس میں کسی تیسرے ملک کا کردار شروع ہوتا ہے ۔پاکستان اور چین کے باہمی تعلق میں ولن کا تیسرا کردار بھارت تھا ۔جب پاکستان اور چین مشترکہ دفاع کی بات کرتے ہیں تو بھارت اسے دومحاذوں کی جنگ قراردیتا ہے یعنی ایسی جنگ جس میں بھارت کو بیک وقت چین اور پاکستان کی فوجوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔بھارت میں اچھا خاصا ملٹری بلڈ اپ اور تیاری اس دومحاذوں کی جنگ کے تصور گرد گھوم رہا ہے ۔بھارت میں اس خطرے کے مقابلے کے لئے بہت تیاری ہوچکی ہے ۔امریکہ کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان اور چین کسی بھی جنگ میں مشترکہ طور پر بھارت کے خلاف نہ کود پڑیں۔1962کی چین بھارت جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کا جھانسہ دے کر کشمیر میں پیش قدمی سے روکا تھا ۔پاکستان کی قیادت نے اس جھانسے میں آکر چین بھارت جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن بچالیا ۔یہ عارضی تدبیر ثابت ہوئی ۔جس جنگ سے پاکستان نے دامن بچالیا تھا ٹھیک تین سال بعد1965میں وہ جنگ پاکستان کو تنہا لڑنا پڑی اور اس کا کوئی نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوا۔اب حالات کے چرکے اور دھوکے کھا کر پاکستان نے بھارت کے مقابلے کے لئے چین کے ساتھ تعاون کرنے کا راستہ اپنایا تھا ۔یہ سٹریٹجک تصوربھارت کے لئے ڈراونا خواب تو تھا ہی مگر امریکہ کے ڈاکٹرائن کے بھی خلاف تھا ۔اس لئے امریکہ نے پاکستان کو ڈرا دھمکا کر دو محاذوں کی جنگ سے پیچھے دھکیل دیا ہے ۔اسی طرح کشمیر پر چین کا سرگرم کردار اب ٹھنڈے ٹھار ردعمل میں ڈھل رہا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ پانچ اگست کے قدم کو تقدیر کا لکھا سمجھ لیا گیا ہے اور چین اس معاملے میں مدعی سست گواہ چست کا کردار کیوں کر ادا کرسکتا ہے ؟۔

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد