عمران خان پر حملہ اور عدالتی حکم پر مقدمے کا اندراج

گزشتہ روز سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت پر کارروائی کے لئے دائر وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پر جمعرات کو حملہ ہوا ابھی تک اس کی ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی؟ آئی جی پنجاب نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ اندراج مقدمہ سے پنجاب حکومت نے منع کیا ہے۔ اس جواب پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ 24 گھنٹوں میں مقدمہ درج کیا جائے دوسری صورت میں عدالت ازخود نوٹس لے گی۔ عدالتی کارروائی کے دوران آئی جی پنجاب کا جواب اہمیت کا حامل تھا انہیں عدالت کو تفصیل کے ساتھ بتانا چاہیے تھا کہ پنجاب حکومت سے کس سطح پر انہیں اندراج مقدمہ کے لئے منع کیا گیا اور کیا آئی جی پنجاب ان وجوہات کے بارے بھی جانتے ہیں جو اندراج مقدمہ کے لئے مانع ہوئیں؟ عدالتی حکم پر ایف آئی آر تو درج کرلی گئی لیکن اندراج مقدمہ کے لئے جن قانونی ضابطوں کی ابتداً تکمیل ضروری تھی ان کا کیا ہوگا؟ گزشتہ روز وفاقی وزارت داخلہ کے توسط سے وفاقی حکومت کی جانب سے چیف سیکرٹری پنجاب کو بھجوائے گئے خط میں بھی استفسار کیا گیا کہ وزیرآباد حملہ کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان اور دیگر زخمیوں کا میڈیکو لیگل کیوں نہیں کرایا گیا؟۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ نے اندراج مقدمہ کا حکم دینے سے قبل ایف آئی آر کے عدم اندراج پر سوال پر ہی اکتفا کیوں کیا۔ اس سوال کی اہمیت بھی دوچند ہے کہ عدالت نے آئی جی سے یہ استفسار نہیں کیا کہ لانگ مارچ اور بالخصوص اس کنٹینر کی حفاظت کا سکیورٹی پلان کیا تھا جس میں عمران خان سوار تھے اور یہ کہ کیا جن شخصیات نے وزیرآباد میں حملے کی پیشگی اطلاع کا دعویٰ کیا ہے ان میں سے کسی نے زبانی یا تحریری طور پر پولیس یا صوبائی حکومت سے رجوع کیا؟ عمران خان پر ہوئے حملہ اور بعدازاں الزام کی بوچھاڑ سے بنی فضا میں اگر وفاقی حکومت کی جانب سے چیف سیکرٹری پنجاب کو بھجوائے خط کو نظرانداز بھی کردیا جائے تو اصل اہم سوال کو کیسے نظرانداز کردیا جائے گا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو کتنی گولیاں لگیں؟ کیونکہ جناح ہسپتال اور شوکت خانم ہسپتال کے اس حوالے سے بیانات میں تضاد ہے۔ مزید تضاد عمران خان کی جانب سے خود کو چار گولیاں لگنے کے دعوے سے پیدا ہوا جبکہ اسی اثناء میں سابق وزیراعظم کے ایک وکیل بابر اعوان کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ عمران خان کو اے کے47 رائفل کا ایک فائر لگا ہے۔ اس دعویٰ سے نہ صرف معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا بلکہ وقوعہ کے وقت سے سوموار کی صبح تک اس حوالے سے کئے جانے والے تمام دعوے اور لگائے گئے الزامات مشکوک ہوتے دیکھائی دیتے ہیں۔
قانونی ماہرین کا ایک طبقہ یہ سوال بھی اٹھارہا ہے کہ گرفتار ملزم کے اعترافی بیان کے بعد ”کیا مفروضوں پر مبنی الزامات کی بنیاد پر مقدمہ بنتا ہے اور کیا اس سے مقدمہ پر منفی اثر نہیں پڑے گا”۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ مقدمہ اعترافی بیان پر درج ہونا چاہیے۔ تفتیش کے مرحلہ میں اگر عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے درست ہونے کے شواہد ملتے ہیں تو ضمنیوں میں ان افراد کے نام شامل کئے جاسکتے ہیں جن کے بارے میں سابق وزیراعظم یہ کہہ رہے ہیں وہ ان پر حملہ میں ملوث ہیں۔ الزامات کی تکرار اور دعوؤں سے بنی صورتحال کو اندراج مقدمہ کے وقت کیسے نظرانداز کردیا جائے گا نیز یہ کہ قاتلانہ حملے کے اس فوجداری کیس میں ابتدائی طور پر نظرانداز ہوئے قانونی تقاضوں کا جواز کیا پیش کیا جائے گا؟ حملے کی سنگینی اور اس کے ملکی سیاست و سماجی ماحول پر اثرات سے شاید ہی کوئی ذی شعور شہری انکار کرسکے۔ عمران خان صرف سابق وزیراعظم ہی نہیں ملک کی ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومت ہے۔ بالفرض یہ نہ بھی ہو تو وہ ملک کی اہم شخصیت اور سابق وزیراعظم ہیں ان کے کنٹینر پر جمعرات کی دوپہر حملہ ہوا اس میں ان سمیت 13 افراد زخمی ہوئے جب کہ ایک کارکن جاں بحق بھی ہوا۔ پی ٹی آئی کے بعض ذمہ داران الزام لگا رہے ہیں کہ اس واقعہ کے حوالے سے موقع واردات پر موجود ٹھوس شواہد مٹادیئے گئے ہیں۔ یہ شواہد کس نے مٹائے؟ الزام میں کتنی صداقت ہے اس کا جواب پنجاب پولیس کو دینا ہے کیونکہ کنٹینر پولیس کی تحویل میں ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ جو شواہد اکٹھے کئے گئے انہیں فرانزک ٹیسٹ کے لئے بھجوایا گیا یا ایف آئی آر کے اندراج کا انتظار تھا؟ جس اہم سوال کو روز اول سے نظرانداز کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ کنٹینر کی سکیورٹی فول پروف کیوں نہیں تھی ایک پسٹل بردار شخص کیسے کنٹینر کے اس قدر قریب پہنچ گیا۔ یہ جواب کہ لانگ مارچ اور مخصوص جگہ پر اجتماع میں فرق ہے بظاہر درست لگتا ہے۔ لیکن سوال لانگ مارچ کے شرکاء کے لئے سکیورٹی کے حوالے سے نہیں بلکہ خصوصی طور پر اس کنٹینر کی سکیورٹی کے حوالے سے ہے جس پر سابق زیراعظم اپنے ساتھیوں سمیت حملہ کے وقت موجود تھے۔ وفاقی حکومت نے چیف سیکرٹری پنجاب کو وزارت داخلہ کے توسط سے جو مراسلہ بھجوایا ہے اس میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ وقوعہ کے وقت موقع پر استعمال ہونے والے اسلحہ کی ساختوں بارے معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ اس نکتہ کو اس ابتدائی اطلاع کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں نائن ایم ایم کے پسٹل کے9 خول اور دیگر اسلحہ کے2خول ملنے کا کہا گیا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی زخمیوں کو لگنے والی گولیوں کی جو تعداد بتا رہی ہے وہ یکسر مختلف ہے۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ حساس معاملہ وقوعہ کے وقت سے ہی الزامات سیاست کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ پی ٹی آئی اور پولیس سے ابتداء ہی میں جو قانونی اور طبی حوالوں سے غلطیاں ہوئیں ان کا سدباب کیسے ہوگا؟ بہر طور امید کی جانی چاہیے کہ الزامات سے اٹھی آسمان کو چھوتی دھول سے بنے حبس زدہ ماحول سے کم سے کم وقت میں نجات ملے اور اس وقوعہ کے حوالے سے تمام حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کم ہو اور انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔

مزید پڑھیں:  سنہری موقع سے ذمہ داری کے ساتھ استفادے کی ضرورت