سودی نظام کے خاتمے کا عزم

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے یہ خوش آئند اعلان کیا ہے کہ وفاقی حکومت سودی نظام کے خاتمے سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں جلد واپس لے گی اور معیشت کو سود سے پاک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ مسائل اور پیچیدگیوں کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت پاکستان کی معیشت کو اسلامی خطوط پر چلانے کی کوشش کرے گی اور ملک میں سود کو ختم کرنے کی غرض سے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کوشش کرے گی کہ تیزی سے ملک کے معاشی نظام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔واضح رہے کہ اس سال اپریل میں وفاقی شرعی عدالت نے وفاقی حکومت کو ملک میں اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے نفاذ کے لئے پانچ سال کا وقت دیا تھا اور واضح طور پر فیصلے میں کہا تھا کہ سود کا خاتمہ اسلامی نظام کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور سود سے متعلق کوئی بھی لین دین غلط ہے۔وفاقی شریعت عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سود کا خاتمہ اور اس کی روک تھام اسلام کے مطابق ہے۔ قرض سمیت ہر صورت میں لیا گیا سود ربا میں آتا ہے اور سود اسلام میں مکمل طور پر حرام ہے۔شرعی عدالت کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے بیرونی اور اندرونی قرضوں پر دیا جانے والا سود بھی سود کے تحت آتا ہے اور حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اندرونی، بیرونی قرضوں اور لین دین کو سود سے پاک کیا جائے۔عدالت نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت بین الاقوامی اداروں کے ساتھ لین دین کو بھی سود سے پاک کیا جائے۔سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے2001 میں سودی نظام کے خاتمے کے حکم پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا، جس کے بعد یہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس چلا گیا تھا۔وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو ملک میں سود سے پاک بینکنگ سسٹم کے نفاذ کے لئے پانچ سال کا وقت دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ایسا نظام 31دسمبر2027تک ملک میں نافذ کیا جائے۔عدالت نے کہا تھا کہ اگر آرٹیکل 38ایف برسوں پہلے نافذ ہوتا تو سود ختم ہو چکا ہوتا۔ اس میں مزید کہا گیا تھا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ20فیصد بینکنگ اسلامی نظام کی طرف منتقل ہو چکی ہے اور ملک میں اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے پانچ سال کافی ہیں۔عدالت نے سود ایکٹ1839اور سود کی سہولت فراہم کرنے والے تمام قوانین اور دفعات کو بھی غیر قانونی قرار دیا تھا۔حکومت کا سودی ناظم کے خاتمے کا اعلان نہایت احسن اور قابل صد مبارک باد اعلان ہے اس ضمن میںعملی
طور پر اقدامات اور سودی نظام کے خاتمے میں کس حد تک کامیابی ہوتی ہے اور اس راہ میں مشکلات کیا ہیں ان تمام امور سے قطع نظر حکومت کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی واپسی پہلا قدم ہے جس سے کم از کم اس مشکل راہ میں کم سے کم سفر کا آغاز اور عزم تو ظاہر ہے اس راہ کی مشکلات کایقینا حکومت کو پوری طرح احساس ہو گا اور یہ بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں کہ یہ نہایت پیچیدہ معاملہ ہے جس میں صرف ملکی معاملات ہی نہیں بین الاقوامی معاہدات بھی شامل ہیں جن کی پابندی بہرحال ہونی ہے اور ان معاہدوں سے شاید شرعی طور پر بھی انحراف اور عدم پابندی کی گنجائش نہیں اس ضمن میں حکومت اور علمائے کرام کیا طریقہ کار وضع کرتے ہیں اور کیا طور طریقے اختیار کئے جاتے ہیں یہ فی ا لوقت کا موضوع بھی نہیں اور نہ ہی اس بارے میں کوئی حتمی رائے دی جا سکتی ہے البتہ اندازہ ہے کہ اغیار سے معاہدوں کی پابندی ہو گی جس سے قطع نظر یہ صرف بیرونی ممالک ہی سے معاملت کا نہیں بلکہ خود ملکی اداروں میں اور ملکی بینکاری نظام بھی سودی ہی پر قائم ہے سٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں میں سودی لین دین ہی بینکنگ کے نظام کی بنیاد ہے اور کمرشل بینک صارفین اور کھاتہ داروں سے بھی سودی لین دین ہی کرتے ہیں یہاں تک کہ جن معاملات میں اسلامی بینکاری شراکہ ‘ مرابحہ اور اجارہ جیسے اسلامی طریقے وضع ہیں اور اس پر کامیابی سے عملدرآمد ہو رہا ہے نیز اسلامی بینکاری سودی بینکاری کے مقابلے میں زیادہ کامیابی اور منافع سے چل رہا ہے جس کے باعث سودی بینک اپنے اسلامک بینکنگ برانچوں کی تعداد میں اضافہ بھی کر رہے ہیں اور ایک حوصلہ افزاء امر جاری ہے مگر اس کے باوجود اس نظام پر علمائے کرام کا کلی طور پر اتفاق نہیںاور اس حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں سب سے بڑا اعتراض صرف نام کی تبدیلی کا لگایا جاتا ہے باقی معاملات اور شرح منافع تقریباً یکساں اور ایک جیسا طریقہ کار چل رہا ہے جس کے اثرات معیشت کے تمام شعبوں اور عوامل پر بھی مرتب ہوتے ہیں سودی نظام کا خاتمہ صرف بینکاری کے نظام میں تبدیلی نہیں بلکہ جملہ معیشت کے اصولوں اور کاروبار کی تبدیلی ہے یہ ایک نہایت عرق ریزی کا اور پیچیدہ کام ہے ایسے میں وزیر خزانہ کا اعلان اس ضمن میں پہلا مبارک قدم ضرور قرار پاتا ہے اس سے کم از کم ایک ابتداء تو ہوگی اور اس راستے کی مشکلات کے باوجود بہرحال یہ ناممکن نہیں اگراس پر سنجیدگی سے کام ہو تو یقینا راستے نکل سکتے ہیں بھلے مقررہ سن تک معیشت پوری طرح اسلامی قالب میں نہ بھی ڈھالا جا سکے تو کم از کم اس میں پیشرفت تو ضرور ہو گی۔ اس ضمن میں علمائے کرام اور معیشت دانوں پرایک دینی اور ملی فریضہ عاید ہوتا ہے کہ وہ اس ضمن میں ہر طرح سے تعاون اور طریقہ کار وضع کرنے میں اپنا کردار ادا کریں حکومت کو اس ضمن میں اب مزید وقت ضائع کئے بغیر ماہرین کی ٹیمیں تشکیل دے کر سودی نظام سے چھٹکارا پانے کے عمل کاسنجیدگی سے آغاز کرنا
چاہئے جس کا یقینا پوری قوم اور امت مسلمہ کی طرف سے یقینی طور پر خیر مقدم ہوگا۔

مزید پڑھیں:  خلاف روایت عمل