syed shakil ahmad 10

سخاوت کی کوئی حد نہیں

گزشتہ دو پونے دو سال سے مہنگائی کا حجم بلندتر ہوتا جارہا ہے اور متوسط طبقہ جو پہلے ہی غربت کی گدڑی میں ملفوف تھا مزید اس کی لپیٹ میں جکڑتا جا رہا ہے، لے دیکر کسر کرونا نے نکال دی ہے کہ کاروبار بند ہو گیا ہے، امیر وکبیر کی جمع پونجی میں بھی بندش فعالیت کی وجہ سے کمی آتی جا رہی ہے تو ایسے میں متوسط طبقہ پر کیا گزر رہی ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس حال میں کیا گزر بسر ہے جب نظر اس طرف جاتی ہے تو ایک ہول سا آتا ہے، ایسے میں مرحوم مسلم لیگی رہنماء خان غلام محمد لونڈ خوڑ یاد آجاتے ہیں، کوہ ہمالیہ جیسا جثہ، دبنگ آواز، مزاج میں بے باکی، کھری کھری سنا دینے والے اپنے مزاج کے آدمی تھے، اپنے کچھ الگ سے شغل بھی رکھتے تھے جو ان کے ایک بڑے زمیندار ہونے کی گواہی دیتے تھے، جہاں وہ ایک زیرک سیاستدان تھے وہاں وہ اپنی زمیندار برادری کے حقوق کے بھی علمبردار تھے۔ جب کبھی وہ کسی موضوع پر پریس کانفرنس کرتے تو صحافیوں کا ایک جمگھٹا لگ جاتا کیونکہ ان کی مزیدار باتوں سے لطف اندوز ہونا ہر ایک کو پسند تھا، غلام محمد لوند خوڑ سے وابستہ کئی دلچسپ واقعات بھی ہیں، وہ تاش کے کھیل کے بھی شوقین تھے، ہر شہر میں ان کے مختلف ٹھکانے تھے، لاہور میں لکشمی چوک میں قیام ہوتا تھا، خان قیوم خان سے ان کی نہیں نبھتی تھی چنانچہ دونوں کے درمیان چونچ لڑانے کا مقابلہ رہتا تھا اور اسی مخالفت میں وہ سہروردی کی پارٹی عوامی مسلم لیگ جو بعد میں عوامی لیگ کہلائی شامل ہوگئے تھے، ایک مرتبہ اپنے لاہور کے قیام کے دوران رات کو ان کی محفل خاص جاری تھی، تاش کے شوقین تھے کھیل ہو رہا تھا کہ قیوم خان کی ایماء پولیس نے چھاپہ مارا، غلام محمد فوری طور پر تاش کے پتوں پر بیٹھ گئے، پولیس کے چار پانچ جوان ان کو اُٹھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوکر واپس لوٹ گئے، اگلی صبح غلام محمد لوند خوڑ نے پریس کانفرنس کر ڈالی کہ رات کو قیوم خان وزیر داخلہ کی ایما پر پولیس نے ان کی پارٹی کے اجلاس کے دوران چھاپہ مار کر جمہوریت کی دھجیاں اُڑا دیں، غلام محمد لوند خوڑ کا ذکر اس لئے آیا کہ وہ سیاست سے زیادہ زمینداروں اورکسانوں کے حقوق کی جدوجہد کیا کرتے تھے چنانچہ گنے کی قیمتوں اور اس سے متعلق معاملات پر آواز بلند کرتے، ایک مرتبہ انہوں نے پریس کانفرنس کر کے گنے کی نئی قیمتوں کا مطالبہ کیا تو ایک صحافی نے سوال اُٹھایا کہ گنے کی نئی قیمت کے مطالبے سے مہنگائی نہ بڑھ جائے تو غلام محمد لوندخوڑ نے جواب دیا کہ مہنگائی تو پیٹرول کی قیمتوں میں اونچ نیچ سے بڑھتی گھٹتی ہے جس پر کچھ صحافیوں نے کہا کہ نہیں اجناس کی قیمتوں میں رد وبدل ہی مہنگائی کا سبب ہے۔ اپنے اپنے زمانے کی بات ہے، اب کسی ایک شے کو گرانی سے منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے، ڈالر کی اُڑان بھی غریب کیلئے کرونا وائرس سے کم ثابت نہیں ہوتا، آٹے دال کی قیمتیں بھی آٹھ آٹھ آنسو رلاتی ہیں۔ اس وقت عوام جہاں کرونا کے نگل جانے کے خوف میں دبے ہوئے ہیں، وہاں ان کو مہنگائی نے بھی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ عوام کی نظریں بندش فعالیت (لاک ڈاؤن) کی وجہ سے حکومت کی امداد پر لگی ہوئی ہیں لیکن سمجھ میں نہیںآرہا کیا ہونے جا رہا ہے، مرنجان مرج طبیعت کے مالک، مرتاض شخصیت ہمہ اللہ کی رضا میں وقت گزاری کے عادی تنویر احمد اعوان جو سیاست سے کوسوں دور رہتے ہیں، ایک سچے پاکستانی کی طرح ان کا بھی موجودہ حالات میں دل دکھتا ہے، ان کا فرمانا کہ حکومت آنسو خشک کرنے کیلئے راشن فراہم کررہی ہے یا کرے گی اس سے بہتر طریقہ کار یہ نہیں کہ مہنگائی کو نکیل ڈالے اور عوام عزت وتوقیر سے بلاوجہ کا احسان مند ہونے کی بجائے اشیا ضرورت خریدنے کی استعداد پالیں، جو رقم راشن کی تقسیم پر خرچ ہو رہی ہے بہتر تو یہ ہے کہ اس کو مہنگائی کے خاتمے پر خرچ کیا جائے، تنویر احمد اعوان ایک سچے پاکستانی ہیں اسی لئے ان کی سوچ بھی کھری ہے، اب کیا بتایا جائے کہ لا ک ڈاؤن سے دنیا کی معیشت کا بگاڑ کہاں تک ہوا ہے، تاہم ماضی میں ایک ضرب المثل سنتے تھے کہ یہ منہ اور مسور کی دال، بات پلّے نہیں پڑتی تھی، مگر اب وہ بھی اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ جہاں دنیا میں پیٹرولیم اور سونے کی قیمتیں حیرت انگیز طور پر گری ہیں وہاں پاکستان میں مسور کی دال میں 40روپے کا چڑھاوا آیا ہے، مسور کی دال 140روپے فی کلو خریدنے کی بجائے اس لاک ڈاؤن کی بیروزگاری میں اب 170روپے میں خریدنا پڑے گی، دال جو غریبوں کا کھجا تھا اب وہ گیا۔ اگر یہاں پیٹرول کی قیمت کو سستا کرنے کے اقدام کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ یکطرفہ بات اور زیادتی ہوگی۔ حکومت نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں تاریخ میں نچلی سطح تک آنے پر عوام کو اس کا فائدہ دینے کی غرض سے پیٹرولیم کی منصوعات میں قابل قدر کمی کا اعلان کیا ہے مگر ناقدین کا تجزیہ اس کے برعکس ہے، ایک نجی ٹی وی کے مطابق ایک لیٹر پیٹرول پر 45.85روپے ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے جس کے بعد عوام کو 81.58روپے میں بیچا جا رہا ہے، اسی طرح ڈیزل پر 49.11روپے فی لیٹر ٹیکس، لیوی اور ڈیوٹیز عائد ہیں جبکہ اس پہلے پیٹرولیم کی مصنوعات پر 30روپے تک کی ریکارڈ کمی گئی تھی اس طرح چھبیس ماہ بعد پیٹرول کی قیمت 90روپے سے نیچے آئی ہے لیکن ٹیکسز کی شرح بڑھا دی گئی ہے اور یوں اپنے منافع کی شرح کا فائدہ کم نہیں ہونے دیا گیا ہے، جس پر قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پیٹرول ڈیزل کی قیمت پچاس روپے فی لیٹر کرے، بات تو درست ہے کیونکہ وہ زمانہ چلا گیا جب گندم کی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی کی اونچ نیچ ہوتی تھی، اب پیٹرول، سونا اور ڈالر کی اجارہ داری ہے، سونا بھی سستا ہوا ہے، پیٹرول بھی گر گیا ہے، اگر اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے تو مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کو ریلیف حقیقی معنوں میں مل سکتا ہے، ویسے عمران خان نے زیادہ نہیں کچھ ہی عرصہ پہلے فرمایا تھا کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آکر عوام کو 47روپے فی لیٹر پیٹرول فراہم کرے گی، اب اللہ نے موقع دیا ہے تو اس سے مستفید ہو جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  9مئی سے 9مئی تک