سٹریٹجک ڈیپتھ کی سربریدہ لاش

پاکستان اور افغانستان کا چمن بارڈر لہو لہو ہو کر رہ گیا ہے ۔یہ وہ بارڈر ہے جس کے بارے میں افغانستان کے ایک معروف اور مضبوط گوریلا لیڈر گلبدین حکمت یار اکثر بھرے جلسوں میں کہا کر تے تھے کہ مجاہدین کی کامیابی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بارڈر نہیں رہے گا ۔اس دعوے کو چار عشرے گزرنے کے بعد افغانستان کی سرحد سُلگ رہی ہے اور کبھی کبھار یہ دو دوستوں کی بجائے دو دشمنی کی حد بندی کا منظر پیش کر تی ہے۔چمن بارڈر پر افغان فورسز کی طرف سے ہونے والی فائرنگ سے چھ شہری جاں بحق اور سترہ زخمی ہوچکے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اس واقعے کی مذمت کر چکے ہیں۔افغان حکام واقعے کی تحقیقات کی یقین دہانی کروا رہے ہیں۔پاکستان کی دو سرحدیں ہمیشہ سے مسائل کا باعث بنتی رہی ہیں ۔ان میں ایک سرحد پر گرم جنگ اور ایک پر سرد جنگ جاری رہی ہے ۔بھارت کے ساتھ آج پاکستان کے سو اختلافات ہیں ۔دونوں کے درمیان تعلقات سکڑ کر رہ گئے ہیں ۔ اس کے باوجود اس سرحد پر امن کے پھول کھلے ہیں ۔اس کے برعکس جس سرحد کو ٹھنڈا رکھنے اور امن کے پھولوں کی پھلواری بنانے کے خواب میں پاکستان نے سٹریٹجک ڈیپتھ کا دفاعی تصور ایجاد کیا اور پھر افغانستان میں بغاوت کے شعلو ں کو ہوا دی اور اس کے ساتھ ہی آگ اور خون کا ایسا کھیل شروع ہوا جس میں کسی کا سر جلا کسی کا ہاتھ تو کسی کی کلاہ خاکستر ہوئی اور پاکستان ان میں شامل تھا جس کی کلاہ بھی جلی اور ہاتھ بھی ۔آج وہی سرحد پاکستان کے خلاف شعلے اُگل رہی ہے ۔یہ سب حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں ہوتا تو اچنبھا نہ تھا مگر یہ ان طالبان کے دور میں ہے جن کا وجود پاکستان کے سٹریٹجک ڈیپتھ کے تصور کی مرہون منت ہے ۔گویا کہ بڑے کھلاڑیوں نے سٹریٹجک ڈیپتھ کے اُبلتے ہوئے تیل کی کڑاھی واپس پاکستان پر ہی اُنڈیل دی ہے ۔بہت ارمانوں کے ساتھ افغان سرحد پر باڑھ لگانے کا فیصلہ ہوا۔ایک دور میں بتایا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے تمام مسائل کا حل باڑھ ہے ۔اس سے بہت سے لوگ کبیدہ خاطر ہوئے ۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کا ناراض ہونا بجا تھا عام لوگ بھی اس عمل سے خوش نظر نہیں آئے ۔بارڈر کے دونوں طرف پرانی رشتہ داریاں ہیں اور افغان پناہ گزینوں کی آمد کے بعد تو منقسم خاندانوں اور کارباری مفادات کا ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے ۔سمگلرو ں کی جنت بھی یہی سرحد رہی ہے ۔اے پی ایس کے حملہ آوروں کے بارے میں کہا گیا کہ اسی سرحد سے داخل ہوئے ۔اس لئے ایک دور کا فرمان اور تقاضا تھا کہ سرحد پر باڑھ بندی ہو ۔باڑھ بندی ہوئی جس پر غریب ملک اور عوام کے ٹیکسوں کی بھاری رقم خرچ ہوئی ۔طالبان نے آتے ہی اس باڑھ پر حملے شروع کردئیے اور کباڑ کے طور پر اسے لپیٹ کر گھروں کو لے جانے لگے ۔باڑھ لگی ہی تھی کہ سوات کے پہاڑ ہی نہیں شہر وقصبات بھی طالبان سے بھرگئے۔یہ عمل ایک دور کی ناگزیر باڑھ کو غیر موثر اور بے کار ثابت کرنے کے متراف تھا ۔ابسولیوٹلی ناٹ کیا تھا ۔غیر کی جنگوں میں شرکت نہ کرنے کا اعلان تھا ۔یہ اعلان امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کیا تھا جنگ بازوں نے انہیں نشانِ عبرت بنادیا ۔پاکستان میںیہ آواز بلند ہوئی تو اس سے پہلے ہی” ابسولیوٹلی یس ”کا کھیل شروع ہوچکا تھا ۔اب تو یہ دلچسپ منطق سامنے آئی ہے کہ امریکہ افغانستان پر اس لئے نظر رکھنا چاہتا ہے کہ طالبان پاکستان کے لئے خطرہ نہ بنیں ۔پاکستان کے پاس سوائے ایٹم بم کے اور ہے کیا جسے خطرہ ہو اور اصل کھیل یہی ہے کہ پاکستان کے ایٹم بم کو حفاظت کے نام پر مشترکہ تولیت میں لیا جائے ۔اس کے لئے چوکیداری میں شراکت کو قبول کیا جائے اس کے بعد ملکیت میں بھی شراکت ہو اور یوں وہ بھی ایف سولہ جہاز بن کر رہ جائیں کہ جنہیں پاکستان ایک مخصوص اور اصلی دشمن کے خلاف استعمال نہیں کرسکتا ۔جس کے خطرے کے لئے خریدے گئے اگر اس کے خلاف استعمال نہیںہونے تو پھر انہیں تیس مارچ کی پریڈ کے لئے استعمال کیا جائے یا اتوار بازار میں رکھا جائے فرق کیا پڑتا ہے؟۔ایک ایٹمی طاقت کو غیر مستحکم رکھنے کا کھیل پردے کے پیچھے جاری ہے ۔واہگہ پر امن کے پھولوں کا کھلتے رہنا اور طورخم اور چمن پر آگ کے شعلوں کا سلگتے رہنا اس حکمت عملی کا تقاضا ہے۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں