زمانہ صاحب زر اور صرف”نوکر” تو

شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز ایک بار پھر کہا ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفے جلد منظور کئے جائیں اور اس مقصد کے لئے ہم سپیکر کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں ‘ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ استعفے اپریل 2021ء میں د یئے تھے ‘ تاہم خبریں کچھ اس طرح کی آرہی ہیں کہ استعفے 2022ء میں سپیکر کو بھیجے گئے تھے ‘ ادھر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ ان سے تحریک کے اراکین کو اپروچ کرکے کہہ رہے ہیں کہ ان کے استعفے منظور نہ کئے جائیں ‘ اور یہ کہ وہ ہر رکن اسمبلی سے ذاتی طور پر مل کر ان کی رائے معلوم کرنے کے بعد ہی استعفے منظور کرسکتے ہیں ‘ اس پر شاہ محمود قریشی کا کہناہے کہ ان کی جماعت کے ممبران اسمبلی ایک ساتھ سپیکر کے سامنے اپنے استعفوں کی تصدیق کرنے کو تیار ہیں ‘ مگر واقفان حال کے مطابق یہ اتنا آسان کام بھی نہیں کیونکہ ایک ایک رکن اسمبلی کے ساتھ مل کر تصدیقی عمل سے گزرنے اور تبادلہ خیال کرنے میں اچھا خاصا وقت لگ سکتا ہے ‘ جبکہ استعفے بھیجنے اور سپیکر کو ملنے کے درمیان خاصا وقفہ موجود ہے جس سے شاہ محمود قریشی کے بیان کی تصدیق کے دوران کئی سوال اٹھ رہے ہیں ‘ ادھر تحریک انصاف کے سربراہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے ”حتمی اعلان” کے لئے 17دسمبر کی تاریخ مقرر کی تھی اور جب یہ کالم آپ کی نظروں سے گزرے گا تو عین ممکن ہے کہ اس حوالے سے تاریخوں کا تعین ہو چکا ہو ‘ بہرحال محولہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کی قسمت کا جو بھی فیصلہ ہوا ہو ‘ اس سے قطع نظر قومی اسمبلی کے اراکین تحریک انصاف کے ا ستعفوں کے حوالے سے کہ وہ کب بھیجے گئے اور کب سپیکر قومی اسمبلی تک پہنچے ‘ ہمیں پی ٹی وی کے شاندار ماضی کے دور میں ایک ڈرامہ سیریز یاد آرہی ہے کمال احمد رضوی مرحوم کی تحریر کردہ اس ڈرامہ سیریز کا نام تھا ”آپ کے مخلص” ویسے تو کمال احمد رضوی کی ایک اور سیریز”الف نون” بھی بہت مقبول تھی جس میں وہ فلمسٹار ننھا کے ساتھ مل کر (الن ‘ ننھا) کے کرداروں میں شامل تھے تاہم ڈرامہ سیریز”آپ کے مخلص” بھی ایک بہت خوبصورت ڈرامہ سیریز تھی ‘ جس میں وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے فیس لے کر مشورے دیا کرتے نظر آتے تھے ‘ ڈراموں کے دوران وہ اپنے موکلین کے مسائل ایک بہت موٹی کتاب جسے وہ ”پارکنسن لائ” کے نام سے پکارتے تھے ‘ کھول کر مشورہ سامنے لاتے اور چٹکی میں وہ مسئلہ حل کرنے کا راستہ نکال لیتے ‘ یہ پارکنسن لاء کیا چیز تھی ‘ اس کی حقیقت تو سیریز کے آخری قسط کے بعد ایک تعارفی پروگرام میں کمال احمد رضوی نے بتا دی تھی ہم بھی اس سے کالم کے آخر آخر میں پردہ اٹھائیں گے ‘ تاہم تب تک آپ اس بلیک لاء ڈکشنری کے ذکر سے لطف اٹھاتے رہیں جس کا حوالہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کے دوران سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ بنچ کے ریمارکس میں دیا جاتا رہا ‘ اس بلیک لا ڈکشنری کاتذکرہ محولہ مقدمے سے پہلے پاکستان کی عدالتی نظام میں کبھی نہیں کیاگیا ‘ بہرحال بات ہو رہی تھی کمال احمد رضوی کی کتاب پارکنسن لاء کی وہ کتاب گویا ایک ایسی زنبیل تھی جس میں ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ۔ اس ڈرامے کی دو قسطوں پر مشتمل ایک ڈرامے میں ایک ہوٹل کا مالک ‘ ہوٹل کے ملازمین کی یونین کے بے جا مطالبات سے تنگ آکر”آپ کے مخلص” کے دفتر میں آکر اپنا مسئلہ بیان کرتا ہے کہ وہ ملازمین کے ناجائزمطالبات پورے نہیں کرسکتا کیونکہ آمدن کم ہے اور اگرملازمین کے مطالبات پورے کئے جائیں تو وہ دیوالیہ ہو سکتا ہے ۔”آپ کے مخلص” کا لیگل ایڈوائزرمحولہ کتاب کھول کرمسئلے کاحل نکال کرپیش کردیتا ہے کہ وہ (مالک) ہوٹل کے اوپر برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کردے ‘ ہوٹل کا مالک حیران ہو کر کہتا ہے ‘ جناب اگر میں ہوٹل فروخت کر دوں تو کروں گا کیا؟ مگر اسے اصل صورتحال سمجھائی جاتی ہے تو وہ خوش خوش واپس جا کر ہوٹل کی بالکنی پر بینر” ہوٹل برائے فروخت” لگا لیتا ہے ‘ یونین کے عہدے دار بھی حیران ہو جاتے ہیں وہ بقایا جات طلب کرتے ہیں ‘ نیا خریدار(آپ کا مخلص کا لیگل ایڈوائزر) اپنے بریف کیس میں رقم لا کر تمام ملازمین کو ادائیگی کر دیتا ہے اور ہوٹل کو تالا لگا دیتا ہے ‘ ملازمین کچھ دن تو بقایاجات کے بل پر گھر کاکام چلا لیتے ہیں ‘ مگر پھران کے گھروں میں فاقے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں ‘ اسی دوران ہوٹل کا نام تبدیل کرکے تجربہ کارملازمین بھرتی کرنے کے لئے نہ صرف ہوٹل کے اوپر بینر آویزاں کردیا جاتا ہے بلکہ اخبار میں اشتہار بھی شائع کر دیا جاتا ہے’ وہی پرانے ملازمین بے روزگاری سے تنگ آکر ملازمت کے لئے آتے ہیں ‘ تو ہوٹل کا نیا مالک ان کو ملازمت کا پروانہ یعنی اپوائمنٹ لیٹر جاری کرنے سے پہلے ان سے اپنی مرضی سے ملازمت سے استعفیٰ کے کاغذ پر دستخط کرواتاہے ‘ وہ پوچھتے ہیں کہ ابھی ملازمت تو ملی نہیں تو استعفیٰ کس بات کا ‘ اس موقع پر ہوٹل کا اصل مالک سامنے آکر انہیں بتاتا ہے کہ اگر وہ آئندہ کچھ گڑ بڑ کریں گے تو ان کے استعفے قبول کرتے ہوئے ملازمت سے نکالنے میں آسانی ہو گی۔بے روزگاری سے لڑتے لڑتے ان کی ہمت جواب دے چکی ہوتی ہے ‘ اس لئے وہ ملازمت کا لیٹر لینے سے پہلے ہی اپنے استعفے دستخط کرکے مالک کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ اس پر احمد فراز کا مشہور شعر ان کی روح سے معذرت کے ساتھ تھوڑی سی تبدیلی کرکے موجودہ سیاسی صورتحال پر منطبق کیا جا سکتا ہے کہ
فراز تونے اسے مشکوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحب زر اور صرف ”نوکر”تو
یہ جو شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا ہے کہ استعفے اپریل 2021ء میں دیئے گئے تھے اور سپیکر کے مطابق استعفے ان تک 2022ء میں پہنچے ہیں تو اس پر پارکنسن لاء کا اطلاق ہوتا دکھائی دیتا ہے یعنی اب سیاسی رہنما ٹکٹ تقسیم کرنے سے پہلے اراکین کے استعفے لے لیتے ہیں تاکہ ”سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آویں”۔ مگر اڑچن سپیکر کی جانب سے ذاتی تصدیق نے ڈال لی ہے اور جب تک سپیکر کویقین نہ آئے کہ استعفے ممبران اسمبلی نے اپنی مرضی سے دیئے ہیں تب تک ان کی منظوری کے امکانات نظر نہیں آتے ‘ اور پھرجب بقول سپیکر ‘ استعفے دینے والے ان سے درخواستیں کر رہے ہیں کہ خدارا استعفے منظور نہ کئے جائیں تو خواہ اپریل 2021ء کے ہوں یا پیدل چلتے ہوئے 2022ء میں سپیکر چیمبر تک پہنچے ہوں۔ مگر فرق اس سے تو پڑتا نہیں۔
جو ہو نہ سکی بات وہ چہرے سے عیاں تھی
حالات کاماتم تھا ‘ ملاقات کہاں تھی

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام