عذرلنگ

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہاہے کہ میں اپنی حکومت میں بے بس تھا وکلا کی رول آف لاء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی حکومت میں پوری کوشش کی، کرپشن کے کیسز میچیور تھے، نیب کہتا تھا ان کے کیسز میچور ہیں لیکن پیچھے سے ہمیں اجازت نہیں، جنرل باجوہ اجازت نہیں دیتے تھے، وہ فیصلہ کرتے تھے کہ نیب نے کس کو کتنادبانا ہے ‘ کب چھوڑنا ہے’ کب اندر کرناہے’شہبازشریف کا کیس ہی نہیں لگتا تھا’ میں وزیراعظم بے بس بیٹھا تھا۔چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں وسائل کی موجودگی کے باوجود قانون کی حکمرانی کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا اور اس کے لئے عدلیہ اور وکلا کا بڑا اہم کردار ہے۔ملک کو دلدل سے صرف ایک چیز قانون کی حکمرانی ہی نکال سکتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ8ماہ سے قانون کی حکمرانی کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔سیاستدانوںکی بدعنوانیوں کے مقدمات کے حوالے سے سابق وزیراعظم کی جانب سے بے بسی کا رونا رونے میں کتنی حقیقت ہے یا کتنا فسانہ ہے اس سے قطع نظر یہ سوال توبراہ راست بنتا ہے کہ اولاً انہوں نے اس بے بسی سے نکلنے کی کتنی سعی کی دوم یہ کہ وہ جب تک اقتدار میں رہے انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل(ر) باجوہ کی تعریفوںکے پل باندھتے رہے محرومی اقتدار کے بعد کے بیانات واعتراضات اور بے وقت کا سچ کس کام کا ؟ اس سے عدم اتفاق بہرحال ممکن نہیں کہ وطن عزیز کی سیاست و حکومت میں مداخلت ہوتی رہی ہے اور ہرحکمران کے ساتھ روابط کے ساتھ ساتھ دوسری جانب کی بھی ایک کھڑکی کھلی رکے رکھنے کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور یہ طریقہ کارآزمودہ نسخہ قرارپاتا رہا ہے اب بھی حالات و واقعات سے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ شاید بند نہ ہوا ہو اور صرف وقفہ ہو۔ بہرحال خوش آئند امر یہ ہے کہ اب اس باب کی ادارہ جاتی فیصلے پر بندش کااعلان کیا گیا ہے جس پرعملدرآمد میں کس قدر سنجیدگی کامظاہرہ کیاجاتاہے اس کا اندازہ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا البتہ خدشات اب بھی موجود ہیں کہ کوئی نہ کوئی کھڑکی ضرور کھلی رہ گئی ہو گی مقام شکر ہوگا کہ دروازہ بند کردیاگیا ہویا کم از کم اس کااعتراف کرکے وہ دروازہ بند کرنے کی یقین دہانی تو بہرحال کرادی گئی ہے جس کا کم از کم حوالہ تو دیا جا سکتا ہے ہمارے تئیں اس دروازے کی مکمل بندش اور اس کوتالہ لگا کر زنگ آلود کرنے کاعمل خود سیاستدانوں کے اپنے ہاتھ میں ہے جب تک سیاستدان دستک دیتے رہیں گے دروازہ کھل سکتا ہے اور کسی کھڑکی سے بھی رابطہ ممکن رہے گا اب جبکہ ادارہ جاتی فیصلے کا رسمی ا علان کردیاگیا ہے تو سیاستدانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سویلین بالادستی ارو بغیر کسی مداخلت کے حکومت کے حصول اور حکومت چلانے کے لئے ماضی کے عطار کے لڑکے سے دوا لینے سے احتراز برتیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان
کے اعتراف حقیقت کی حیثیت لڑائی کے بعد یاد آنے والے مکے سے زیادہ کی نہیں ان کے اس حیلے کو اپنی ناکامی کا جواز بنانے کے مترادف بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔اس قسم کی دلیل قابل قبول نہیں عمران خان اگراس عذر لنگ کو چھوڑکر اپنی ارد گرد کی کمزوریوں اور خرابیوں کا کھلے دل سے اعتراف کریں تو یہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ بھی ہو گا اور قابل قبول عمل ہونے کے ساتھ مستقبل میں محتاط رہنے اور کامیابی کی طرف قدم بھی تصور ہو گا۔ قوم نے ان کو ان کے ان انقلابی وعدوں سے متاثر ہوکر ووٹ دیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکربدعنوانی کا خاتمہ اورملک میں مضبوط اور با اختیار حکومت کی بنیاد رکھیں گے جس پر وہ کس قدر پورا اترسکے اس کا اعتراف خود ان کے اپنے بیان میں بے بسی کی تصویربنے ہونے اور عذر تراشنے سے واضح ہے محرومیوں کی داستانیں سنانے سے قوم اوراپنے حامیوں کومایوس کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا قوم نے اس امید پران کی جماعت کوکامیاب بنایا تھا کہ وہ ملکی نظام کی اصلاح اوراپنے دعوئوں کی تکمیل کرکے دکھائیں گے ان کی رام کہانی سنانے سے مایوسی فطری امر ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ ایسا نہیں کرسکے تو ان کے اور باقی ان کے مطعون رہنمائوں میں کیافرق رہ جاتا ہے؟سیاسی رہنمائوں کو اس طرح کی حیلہ بازی سے پرہیز کی ضرورت ہے جو وزیر اعظم جیسے منصب کے لئے بھی باعث ہتک ہو اور قومی اداروں کے حوالے سے بھی منفی تاثرات کا باعث بنے ۔ قانونی طورپر ریاست و حکومت میںسب سے بڑا عہدہ وزیراعظم کا ہوتا ہے ہرآئینی اختیاراس عہدے پرفائز شخصیت کو حاصل ہوتا ہے ایسے میں ان کو کام کرنے نہیں دیاگیا جیسے قسم کی کوئی بات قابل قبول نہیں اگر ایسا ہی تھا تو انہوں نے بروقت قوم کو آگاہ کرنے اور عہدے کا وقار برقرار رکھنے کی سعی کیوں نہیں کی اگرانہوں نے ایسا کرتے ہوئے اس وقت یہ مشکلات عوام اور پارلیمان کے سامنے رکھتے تو ہی بری الذمہ ہونے کا امکان تھا کہ اگر وہ ایسا کر گزرتے تو سیاسی جماعتوں کی جانب سے امکانی طور پر ان کی حمایت کی جاتی اور وہ پارلیمان کوبالادست اور حکومت کو بااختیار بنانے کے علمبردار بن کر سامنے آتے جن کو مزید عوامی حمایت مل سکتی تھی یوں وہ وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ایک مقبول عوامی لیڈراور سویلین بالادستی کے نقیب اور نمائندے کے طور پر سامنے آتے اور آج وہ اس پوزیشن کی بجائے بہت بہتر پوزیشن میں ہوتے اور عین ممکن تھا کہ وہ پانچ سالہ مدت اقتدار بھی پوری کر لیتے ۔ اب بھی ملک میں اہل حکومت اور اہل سیاست جوکچھ کر رہے ہیںباہم مل بیٹھنے کی بجائے جس قسم کی محاذ آرائی جاری ہے صاف نظر آتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی ہاتھوںاپنی داڑھیاںاوروں کے ہاتھوں میں دے دی ہیں حکومت میں جو خوب ہوتا ہے بعد میں اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہئے اور جوچیز بعد میں ناخوب ٹھہرتی ہے دور اقتدار ہی میں اس کی مزاحمت کی جائے تاکہ بعد میں کم از کم بساط بھر مزاحمت نہ کرنے کے الزام کا تو سامنا نہ ہو۔جب تک سیاست کو انتقامی سیاست بنانے کی بجائے سیاسی اصولوں کا پابندنہیں بنایا جائے گا اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے ہی کو سیاست قرار دینے کا سلسلہ چلتا رہے گا ہر محروم اقتدار یہی کہانی دہراتا نظر آئے گا۔

مزید پڑھیں:  اسے نہ کاٹئے تعمیر قصر کی خاطر