صوبے کی روایات کا خون

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے گورنر کو ارسال کردہ سمری پر دستخط کے بعدایک مرحلے کی تکمیل ہو گئی ہے جس کے بعد اب نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری مقررہ مدت میں کرنے کا مرحلہ ہے لیکن بیانات سے نہیں لگتا کہ خیبر پختونخوا کے روایتی معاشرے کی اقدار کا خیال رکھا جائے گااور مشاورت احسن انداز میں مکمل ہو گی ۔ اس ضمن میں صورتحال یہ بن گئی ہے کہ بجائے اس کے کہ احسن انداز میں مشاورت ہوتی اور پختون روایات اور صوبے کی پارلیمانی روایات کی پیروی کی جاتی بدقسمتی سے برعکس صورتحال ہے۔اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعلیٰ کی مشاورت کے امکانات نظر نہیں آتے اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعلیٰ نے ایک دوسرے کے خلاف محاذ سنبھال لیا ہے جس کے بعد نہیں لگتا کہ دونوں کسی ایک نام پر متفق ہو سکیں گے اکرم درانی نے وزیر اعلیٰ کے ساتھ اور وزیر اعلیٰ نے اکرم درانی کے ساتھ بیٹھنے سے ہی انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اکرم درانی کو اپنی برادری میں بیٹھنا ہی زیب دیتا ہے اکرم درانی کی جانب سے نگراں وزیر ا علیٰ کے معاملے پر سامنے آنیوالے بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ ہائوس میں نہیں بیٹھیں گے، وزیر اعلیٰ کے ساتھ بات کرنے کے لئے کہیں اور بیٹھنے کو تیار ہیں اس بیان کے بعد اب وزیر اعلیٰ محمود خان نے بھی سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔محمود خان نے کہا کہ اکرم درانی اور ان کا ٹولہ الیکشن سے بھاگ رہا ہے عوام ان کا مکروہ چہرہ دیکھ چکے ہیں۔ اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ ہمارے اکابر سیاسی زعماء اس قسم کی زبان کا استعمال کر رہے ہیں دونوں صوبے کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور پارلیمانی آداب و روایات آئینی ضروریات سے بخوبی واقف اورسنجیدہ سیاستدان ہیں مگر ان کو نہ اس کا پاس ہے اور نہ ہی ان کو صوبے کی روایات کا خیال ہے اس طرح کی بازاری زبان کے استعمال ہی کے باعث ملک میں سیاست سے لوگوں کی بیزاری بڑھ رہی ہے قبل ازیں خیبر پختونخوا میں صورتحال اس درجے کی آلودگی کا شکار نہ تھی مگر دھیرے دھیرے ہمارے سیاستدانوں پر بھی قابل اعتراض زبان استعمال کرنے والوں کا رنگ چڑھتا گیا اور اب سیاستدان وہی سمجھا جاتا ہے جو سب سے زیادہ قابل اعتراض اور دوسروں کے لئے اہانت آمیز الفاظ کا استعمال کرے ۔ اب تو رواج یہ ہو گیا ہے کہ گویا سیاست لفظی گولہ باری کے بغیرہی ممکن ہی نہیں اس بدعت سیۂ کوفروغ دینے میں ہمارا میڈیا بھی برابر کا ذمہ دار ہے ۔ اب جبکہ صوبے میںانتخابی عمل کاآغاز ہوا چاہتا ہے بہتر ہوگا کہ ہمارے سیاسی زعماء کم از کم اس امر پر تو اتفاق کریں کہ وہ ایک دوسرے کو نہ تو برے القابات سے پکاریں گے اور نہ ہی بلا ثبوت الزام تراشی اور بہتان طرازی کا رویہ اپنائیں گے سیاسی تنقید کاجائزہ لینے پر یہ بات واضح ہو گی کہ سیاسی بیانات میں لغویت اور بلاوجہ کے الزامات کی بھرمار ہوتی ہے جن کی حقیقت کچھ نہیں ہوتی ایسا کرنے والے نہ صرف دوسروں کی پگڑی اچھالتے ہیں بلکہ خود اپنے حامیوں کوبھی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں اور بلاوجہ کی دروغ گوئی اختیار کرکے الٹا اپنااعتماد اور اعتبار کھو رہے ہوتے ہیں جس کی دین و مذہب ‘ اخلاقیات اور سیاسیات میں گنجائش نہیں۔سیاسی سرگرمیوں کے لئے ماحول معتدل بنانے میں ہی سبھی کامفادوابستہ ہے ۔الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جسے دستور کے مطابق انتخابات کے انعقاد کی تیاری کرنا ہے لیکن اس کے لئے ماحول کو ساز گار یا پھر کشیدگی کا ماحول پیدا کرنا سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے ۔شفاف انتخابات کے لئے معتدل اور موزوں فضا کی ضرورت مسلمہ ہے اچھے ماحول پیدا کرنے کی ابتداء اچھے ماحول میں نگران وزیراعلیٰ کے لئے اچھے ماحول میں بیٹھ کراپنے اپنے نام تجویز کرنے سے ہونا چاہئے ایک دوسرے کے ناموں کو تسلیم نہ کرنے میں قباحت نہیں بلکہ اس عمل پر ہی سرے سے عدم آمادگی اور قابل اعتراض قسم کے بیانات نہیں ہونے چاہئیں تاکہ ماحول پربرے اثرات مرتب نہ ہوں اور خواہ مخواہ کشیدگی اور نفرت کاماحول پیدا نہ ہو مخالف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا سیاسی حلقوں اور مقبولیت وکامیابی میںمقابلہ ضرور کریں اور عوام کی حمایت سے شفاف انداز میں کامیابی کے لئے جدوجہد ضرور کریں صرف بلاوجہ کی الزام تراشی اور منفی جذبات کااظہار کرکے ماحول کو مکدرکرنے سے پرہیز کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی