نامعلوم معلوم ہیں

پشاور میں پولیس نے پولیس لائن کی مسجد میں دھماکے کے سانحہ کے خلا ف احتجاج کیا ، سوشل میڈیا رپورٹ کے مطا بق پولیس نے مظاہر ے کے دوران ایسے ہی نعرے بھی لگا ئے جیسا کہ عمومی طور پر کوئی تنظیم اپنے احتجاجی جلو س یا جلسوں میں لگایاکرتی ہے ۔ صوبہ کے پی کے میں یہ دوسری مرتبہ ہے کہ پولیس احتجاج کرتی ہوئی سڑک پر آکھڑی ہوئی ہے اس سے قبل جب مرحوم حیات خان شیر پاؤ صوبے کے گورنر تھے تب پولیس نے قلم چھوڑ نہیں بلکہ صحیح معنوں میں ہڑ تال کر دی تھی اور جلسے جلو س کے ساتھ ہی نعرے بازی بھی کی تھی ، واقعہ یہ تھا کہ تحریک استقلا ل کے سربراہ ایر مارشل اصغر خان پشاور کے چوک یا د گار میں ایک بڑے جلسے سے خطاب فرمارہے تھے ، اس زما نے میں پشاور میںجلسے جلو س اور عوامی سرگرمیوں کا مرکز پشاور ہو ا کرتا تھا ، چوک کے گردونو اح میں لوگوں کا جم غفیر لگ جائے یا تا حد نظر سر ہی سر نظر آئیں تو یہ سمجھاجا تا تھا کہ جلسہ کامیاب ترین ہے کیو ں کہ آبا دی کے لحاظ پشاور کوئی بڑا شہر نہ تھا ، اور نہ آج کل کی طر ح صوبے بھر سے بسیں بھر بھر کر لو گو ں کو جلسہ عظیم الشان کہلو انے کے لیے لایا جاتا تھا بات ہورہی تھی پولیس کے احتجا ج کی ، صوبے کی تاریخ میں پہلی مر تبہ اس وقت پولیس احتجاج کر تی ہوئی سٹر کو ں پر آئی جب چوک یا د گا ر پشاور میں اصغر خان کے جلسے پر پتھراؤ پی پی کے جیالوں کی جانب سے شروع کیا گیا اور ہلڑ بازی کی گئی تب پولیس نے جیالو ں کو ہلڑ بازی سے روکنے کی کو شش کی گئی تو پولیس پر بھی پتھراؤ شروع ہو گیا ، چونکہ یہ ہلڑ بازی برسراقتدارجماعت کے ورکر وں کی جانب سے تھی اور پولیس کو پورا موقع امن واما ن کے لیے فراہم نہیںکیا جا رہا تھا جس پر پولیس نے یکا یک ہڑ تال کر دی تھانو ں میں ہر قوم کی سرگرمیا ں بند ہو کر رہ گئیں اس مو قع پر مختلف باتیں سامنے آئیں مثلا ًیہ لطیفہ ہو ا کہ پی پی کے لیڈروں کی جا نب سے کہا گیا کہ پولیس کی تین دن کی ہڑتال کے دوران کسی جرم کی رپو رٹ تھانے نہیں پہنچی ۔ جس پرکہاگیا کہ پھر تو محکمہ پولیس کو بند کر دیا جائے ، کیو ںکہ پو لیس کی ہڑتال کی وجہ سے کوئی جر م سامنے نہیں آیا ، یہ سب مضحکہ کیو ں کہ جب پولیس ہی ہڑ تال
پر ہے تو مجر مو ں کو کون گرفتار کرتا اور جب تھانوں میں کام نہیںہو رہا تو تھانے میں رپو رٹ کو ن درج کر تا ، اب پو لیس لائن مسجد میں جو اندوہناک سانحہ رونما ہو ا ہے اس طر ف آجائیں تو یہ سانحہ دل مسوس سانحہ ہے جس نے ہر امن پسند کو لرزا دیا ہے ۔ اور یہ محکمہ پو لیس اور انتظامیہ کے تما م ذمہ داروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ کیوں کہ یہ سانحہ ایک ایسی جگہ واقع ہوا ہے جہا ں شہر ی انتظامیہ کے دیگر اداروں سے کہیں زیا دہ مئو ثر طور پرکی جا تی ہے ۔ اور ایک ایسا دارہ جو خود شہریو ںکو تحفظ فراہم کرنے کا ہر طرح سے ذمہ دار ہے نہ صرف خود عدم تحفظ کا شکار ہو ا بلکہ اس عدم تحفظ کی بناء پر اس کے اہلکا ر احتجاج کر تے ہوئے سڑکوں پر
آکھڑے ہوگئے ،وہ کس سے تحفظ مانگ رہے ، حیر ت کی بات ہے ، احتجا ج کے دوران ان کے جو مطالبات سامنے آئی ہیں وہ سب کے سب درست ہی ہیں مگر یہ مطالبات کس سے ہیں جبکہ ان کے محکمہ کا سربراہ خود ایک طاقت ور افسر ہے اور وہ صوبے کے انتظامی سربراہ سے براہ راست رابطے میں رہتا ہے ، ویسے احتجا ج عمو ما ً دباؤ کا ایک گر ہے ، لیکن جب ایک نظم موئثر طور پر ہو تو پھر اسی نظم کو آگے بڑھا نا چاہیے ۔ یہا ں عوام کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھا یا جا رہا ہے کہ جب کسی سرکا ری ادارے کے ملازمین اپنے مطالبات کے حق میں جلسے یا جلو س نکالتے ہیں تو ان پر لا ٹھی چارج ہو جاتا ہے اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا ۔ بہر حال پو لیس کا احتجاج بھی لمحہ فکر ہے اس پر صوبائی انتظامیہ اور وفاقی ارباب حل وعقد کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور قانو ن کے استعمال کو مراعات یافتہ ، غیر مر اعات یا فتہ میں تقسیم نہیںکرنا چاہیے ۔ قانو ن ایک ہو تا ہے اور ایک ہی حثیت میںلا
گو ہو نا چاہیے ، اس سانحہ سے پو لیس کے افرادکا دل پارہ پا رہ ہو ا ہے ، اسی طرح عوام کا بھی دل پارہ پا رہ ہے ، ساتھ ہی عوام کا اعتما د بھی متزلز ل ہو ا کہ جب ایک ایسے ادارے کے احاطے میں ایسا ہو لناک سانحہ اس بے دردی کے ساتھ رونما ہو سکتا ہے توعوام کو تحفظ کہاں کا رہا ، چوں کہ اس وقت کچھ حلقوں کی جانب سے طرح طرح منھ پھٹ کی جا رہی ہے وہ بھی فکر مندی کی با ت ہے ، کچھ تو ذمہ داری کا احساس ہو نا چاہیے ، پولیس احتجاجیو ںکی جانب سے ایک مطالبہ آیا ہے کہ جے آئی ٹی بنائی جائے اگر پو لیس سربراہ مناسب سمجھیں تو اس کا جائزہ لے لیں ۔ کیو ں کہ مختلف جانب سے منھ رہے ہیں حب الوطنی کے تقاضوں کے برعکس ہیں جس سے بداعتما دی کی فضاء پیدا کی جا رہی ہے ، پہلے تحریک طالبا ن پاکستان ، پھر داعش اور پھر کسی اور تنظیم کی جانب سے سانحہ کی ذمہ داری قبول کی جاتی رہی اور پیچھے ہٹتے چلے گئے یہ سب مشکوک کر نے کی کاوشیں ہیں ، طرفہ تما شا یہ بھی ہو ا ہے کہ افغانستان کے وزیرخارجہ ملا متقی کی جانب سے از خود وضاحت آئی ہے کہ افغانستان اس سانحہ میں ملوث نہیں ہے ، بھلا ان سے کوئی پو چھے کہ کس نے افغانستان کا نا م لیا ہے سرکا ری طور پر کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے تو پھر ان کو وضاحت کی پری شانی کیو ں ہوئی ، کیا اس وضاحت کو چو ر کی داڑھی میں تنکا قر ار دیا جا سکتا ہے ۔ یہ دل دو ز سانحہ ہے جس کی کسی بھی حلقے یا طبقے میں پذیر ائی نہیں ہو سکتی یہ ہی وجہ ہے کہ مزے لینے والو ں نے پہلے اس قیا مت صغرا کو بپا کرنے کا اعزاز اپنے نا م لکھوانے کی سعی بد کی جب دیکھا کہ دنیا بھر میں اس کو انتہائی حقارت بھرا فعل قرار دیا جا رہا ہے تو سب کے سب پیچھے ہٹ گئے لیکن صوبائی انتظامیہ اور اس کے متعلقہ اداروں کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے ، یہ قومی سانحہ ہے اور اس کو نہ برداشت کیا جا سکتا ہے اورنہ نظر انداز کیا جا سکتا ہے ، جو یہ کہتے ہیںکہ نا معلو م معلوم ہیں انھیںچاہیے کہ وہ نا کے لفظ کو ہٹاکر معلو م معلوم کو عیاں کر دیں یہ معاملہ قومی ہے اور قوم سے کچھ ڈھکا چھپانہیں ہو نا چاہیے ۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال