قابل توجہ

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ افغانستان پر الزام لگانے کے بجائے اپنے ملک میں عسکریت پسندوں کے تشدد کے پیچھے وجوہات تلاش کرے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور پرامن ماحول میں مل کر کام کرنا چاہئے افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ اور ہلاکتوں کے واقعات میں کافی سے زیادہ اضافہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں افغانستان کی سرزمین کامختلف اوقات میں واضح طور پر پاکستان کے خلاف استعمال ہونا سرحدی فائرنگ وغیرہ جیسے واقعات کے باوجود پشاور کے واقعے کے حوالے سے ان کے وزیر خارجہ کا بیان خلاف واقعہ نہیں ایک ایسے وقت میں جب پولیس چیف تین دن بعد اعصابی دبائو کی حالت میں اس واقع کو خود کش حملہ مان چکا ہے اور کیس کے سراغ ملنے کااعلان کیا ہے ان کے بیان کورد کرنے کی تو کوئی وجہ نہیں لیکن افغان وزیر خارجہ کا محولہ بیان بھی خلاف حقیقت نہیں انہوں نے جو سوالات اٹھائے ہیں یہی سوالات یہاں پر بھی پوچھے جارہے ہیں مستزاد خود پولیس کی صفوں میں کھلبلی اور بے چینی یہ سارے عوامل قابل غور اور قابل توجہ ہیں ایسے میں اس واقعے کی جامع تحقیقات اور حقائق کو سامنے لانے کاعمل آئی جی کی پریس کانفرنس کے بعدایک نیا رخ اختیار کرگیا ہے لیکن جوسوالات ذہنوں پر کلبلا رہے ہیںاور تجربات ومشاہدات کی روشنی میں افغان وزیر خارجہ نے ہمارے حکام کو جو جواب دیا ہے یہ شاید پہلی مرتبہ ہوگا کہ ان سے اتفاق نہ کرنامشکل ہو رہا ہے ۔ ملک کی افغان پالیسی کے ناقدین اس وقت خبردار کر چکے تھے جب یہ فصل بوئی جارہی تھی اب جبکہ اس کی فصل کٹ رہی ہے تو وہ لوگ اس مٹی کے اوپر نہیں بلکہ مدفون ہوچکے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ معاملات کاٹھوس حل دوسروں کو مطعون کئے بنا خود ہی تلاش کرنے کا عمل شروع کیا جائے اور اگر واقعی خود کش حملے کامنصوبہ افغانستان میں بنا ہو اور ان کی سرزمین استعمال ہوئی ہو تب بھی اس کی روک تھام میں ناکامی سے ہمارے سکیورٹی کے ادارے بری الذمہ نہیں ہوسکتے بہتر ہوگا کہ پشاور کے واقعے کی تحقیقات روایتی انداز سے ہٹ کر کی جائے اور جس طرح پولیس فورس بے چینی کا اظہار کر رہی ہے اس کا مناسب حل یہ ہوگا کہ پولیس کی خصوصی ٹیم بلا شرکت غیرے اس کی تحقیقات کرکے حقائق کو سامنے لائے۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال