گل ودھ گئی اے!!!

پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش حملے تین روز بعدبالاخر آئی جی خیبرپختونخوا نے اس کے خود کش ہونے اور خود کش حملہ آور کے داخلے کے حوالے سے معلومات دی ہیں قبل ازیں سوالات پوچھے جارہے تھے قبل ازیںان کاکہنا تھا2021ء میں افغانستان میں نئی حکومت آئی اور بہت سارے عسکریت پسند جیلوں سے فرار ہوئے یا پھر رہا کئے گئے جنہوں نے پاکستان آ کر پناہ لی۔ اب وہ اس سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں۔دریںاثناء پشاور میں دہشتگرد حملے کے بعد خیبر پختونخوا پولیس خود تحفظ مانگنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئی پشاور، مردان ، بنوں، صوابی، نوشہرہ، سوات، شانگلہ، کوہاٹ اور بٹ خیلہ سمیت مختلف اضلاع میں خیبر پختونخوا پولیس اور ایلیٹ فورس کے اہلکار سڑکوں پر نکل آئے اور شدید نعرے بازی کی۔اس موقع پر پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ہر بار پولیس کو ہی کیوں قربانی دینی پڑتی ہے ، پولیس پر مزید حملے برداشت نہیں کرسکتے انہوںنے مطالبہ کیا کہ پولیس کو اختیار دیا جائے اور پولیس کو اپنے فیصلے کرنے میں آزادی دی جائے پولیس نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ہمیں ہرگاڑی کی تلاشی لینے کی اجازت دی جائے۔پولیس لائنز مسجد بم دھماکے کے حوالے سے اب تک پائی جانے والی صورتحال جہاں معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا تو دوسری جانب اس واقعے کے حوالے سے جو باتیں زباں زد خاص و عام ہیں اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مختلف الرائے لوگوں کی اس حوالے سے جو متفقہ اور خیالات ہیں ان کو زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو کے زمرے میں دیکھا جا سکتا ہے جس سے قطع نظر ہنوز اس واقعہ پراسراریت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور یہ کیفیت اس وقت تک رہے گی اور عوامی آراء اس وقت تک اپنی دانست اور سمت میں رہیں گی جب تک سارا معاملہ طشت ازبام نہیں ہوتا اورپولیس اہلکاروں سمیت عوام کوان کے سوالوں کے جوابات نہیں ملتے مشکل امر یہ ہے کہ دہشت گردانہ حملوں اور واقعات میں پولیس تقریباً ہر مرتبہ ہی متاثرہ فریق اور فریق رہی ہے لیکن کبھی بھی اس طرح کا ردعمل سامنے نہیں آیاجوبنوں جیل اور پولیس لائنز پشاور کی مسجد کے واقعے کے بعد سامنے آیا یہ سب کچھ بلاوجہ اور بے سبب اس لئے نہیں ہوسکتا کہ پولیس بطور ادارہ اور بطور فرد ہر سطح پر جس بے چینی کا شکار ہے اور اس کے جذباتی جوانوں نے ایک ڈسپلن فورس کے نظم کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے جس قسم کے جذبات کا اظہارکیا اس سے اس امر کا تاثر بڑھتا جاہا ہے کہ ”گل ودھ گئی اے” ایسے میں اندرونی پوشیدہ دشمن کا کھوج لگائے بغیر جذبات کا تلاطم تھمنے نہیں آئے گا بلکہ جوار بھاٹا کی کیفیت میں اضافے کا خدشہ ہے ایک جذباتی موقع پرجذبات کے اظہار اور جذباتی پن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ کیا جانا چاہئے ۔اب کچھ نہیں ہوتا جیسے خیالات سے دل کو بہلانا دل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کے زمرے میں نہیں لیا جانا چاہئے بلکہ ان اسباب و علل اور وجوہات کو سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ اس قدر بد اعتمادی اور بے چینی کی فضا کا سبب کیا ہے ۔ خیبر پختونخوا پولیس کے لئے شہادتیں اور قربانیاں نئی بات نہیں مگر جذبات کا یہ تلاطم کچھ اورہی کہانی سناتا محسوس ہو رہا ہے جسے محسوس کیا جانا چاہئے ۔ پولیس جسے اکثر ظالم کے مترادف ہی سمجھنے کا رواج ہے اب پہلی مرتبہ پوری طرح تسلیم شدہ مظلوم کے درجے پر کھڑی ہے اور عوام کی پوری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔مشکل امر یہ ہے کہ اس مظلوم پولیس نے ہرجگہ قربانیاں دیں مگر خیبر پختونخوا کو گزشتہ دس سالوںبھاری رقم صرف انسداد دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ادا کی گئی مگر نہ سی ٹی ڈی کے پاس مناسب اسلحہ ہے اور نہ ہی جدید اورمکمل فرانزک لیب پورے خیبر پختونخوا میں موجود ہے ۔ پولیس کو اس طرح تہی دست کیوں رکھا گیا یہ وسائل کہاں خرچ ہوئے اب اس کا حساب اور احتساب ہونا چاہئے ۔ صوبائی دارالحکومت کو اس قدر فنڈز ملنے کے باوجود سیف سٹی تک کا درجہ نہیں دیا جا سکا۔ اب وقت آگیا ہے کہ محکمہ پولیس کی محرومیوں وسائل و فنڈز کی فراہمی و خرچ اور بطور خاص پولیس اہلکاروں کی جانب سے ببانگ دہل جو مطالبات کئے گئے ہیں اور جن تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اس حوالے سے مزید شتر مرغ کے کردار کا مظاہرہ نہ کیا جائے تاکہ صوبے کی منظم فورس اور دہشت گردوں کے خلاف حصار کی پہلی دیوار کمزور نہ پڑ جائے ایسا اسی وقت ہوسکے گا جب اسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا جائے گا جس میں نقب اور چھید کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال