بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟

ٹیکس دہندگان کا پیسہ سرکاری اخراجات سے بچانے کے لئے وزیراعظم شہباز شریف نے کفایت شعاری کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ جامع تجاویز پر اتفاق کرتے ہوئے کمیٹی سے کہا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ان تجاویز پر عمل کیا جائے۔امر واقع یہ ہے کہ ہر بار اور تقریباً ہر دور حکومت میں کفایت شعاری اختیار کرنے کی مختلف تجویز ہی دی جاتی ہیں اور ان سے اتفاق بھی کیا جاتا ہے مگر کفایت شعاری بہم پر عملدرآمدکی مثالیں کم ہی ملتی ہیں اس وقت جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے منی بجٹ لانے اور مزید مالی بوجھ پڑنے اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہونے کے خدشات سے عوام سخت پریشانی کا شکار ہیں ان کو دلاسہ دینے کی حد تک ان تجاویز کی اہمیت ہے البتہ اگر سنجیدگی کے ساتھ ان پر عملدرآمد ہوتا ہے اور عملدرآمد ہونے دیا جاتا ہے تو یہ حقیقی معنوں میں کفایت شعاری کی ابتداء ہو گی ۔ تجاویز اچھی ہیں لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟۔اصولی طور پر انہیں سفارشات کی روشنی میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے کابینہ اور مشیران و معاونین خصوصی کی تعداد میں کمی کرنا چاہیے تھی۔لیکن ایک جانب تجویز اور دوسری جانب تعداد میں اضافہ باعث تعجب امر ہے۔ ہماری رائے میں صرف پنشن ہی5لاکھ تک محدود کیوں رکھی جانی چاہئے بلکہ 5لاکھ سے زائد تنخواہوں پربھی نظرثانی کیوں نہ کی جائے۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں15فیصد کی بجائے 50فیصد کمی کیوں نہ کی جائے ان کی90فیصد اکثریت کا تعلق اشرافیہ سے ہے۔ تین سے پانچ کروڑ کے انتخابی اخراجات کا بوجھ اٹھانے والے خدمت خلق کے دعویدار ہیں تو خدمت خلق ویسے ہی کریں جیسا حق ہے۔ یہ کیا کہ آمدورفت کے اخراجات تک قوم سے وصول کئے جائیں۔ ایک سفارش یہ بھی ہونی چاہیے تھی کہ سپریم کورٹ اور پانچوں ہائیکورٹس کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جائے۔ملازمین کی بھرتی پر پابندی کی سفارش صرف گریڈ ایک سے سولہ تک کی بھرتیوں پر نہیں ہونی چاہیے۔ افسر شاہی کی بھرتی پر بھی اس کا اطلاق ہو البتہ انتہائی ضروری پوسٹوں پر بھرتی ہونی چاہیے تاکہ سرکاری امور کی انجام دہی کے معاملات بگڑنے نہ پائیں۔پلاٹوں کی بندر بانٹ بند ہونی چاہئے اور پچھلے تیس برسوں کے دوران ایک سے زائد پلاٹ لینے والوں سے ایک سے زائد پلاٹوں کی کمرشل قیمت وصول کی جائے۔ حکومت وفاق اور صوبوں میں پلاٹ تقسیم کرنے کی بجائے فلیٹس بناکر الاٹ کرے اور یہ سہولت ہر خاص و عام کے لئے ہونا چاہئے۔ملازمت اقساط دے کر ریٹائرمنٹ کے وقت بقایا جات ادا کرکے فلیٹ لے لے۔ اسی طرح زرعی رقبوں کی بندربانٹ ہو یا ان پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر، دونوں پر قانونی پابندی لگنی چاہیے۔غیر مجازافراد کو الاٹ شدہ رقبے بے زمین کاشتکاروں کو دیئے جائیں۔ ایوانِ صدر وزیراعظم ہائوس، گورنر ہائوسز اور وزرائے اعلی ہائوسز کے سالانہ اخراجات میں50فیصد کمی لائی جائے۔ انتخابی اخراجات کی بے لگامی ختم کرنے کے لئے اخراجات کی نئی حد مقرر کی جائے اور الیکشن کمیشن کو ایسی معاونت فراہم کی جائے کہ وہ آزاد ذرائع سے تصدیق کرسکے کہ کیا امیدواروں نے انتخابی اخراجات کے جو گوشوارے جمع کروائے ہیں وہ درست ہیں یا بس کاغذی کارروائی۔ ججز کی بھرتی کے لئے پارلیمنٹ کمیٹی کی سفارشات لازمی قرار دی جائیں اور اس میں عدلیہ کے حاضر سروس ججز کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ نیم سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں کے سربراہوں کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ سے مشروط ہو۔ نجکاری کی بجائے اداروں کو فعال بنانے کی حکمت عملی اپنائی جائے۔بیرونی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے خودانحصاری کو فروغ دیا جائے اور یہ کہ کم از کم پچھلے40سال میں لئے گئے قرضوں کے حوالے سے پارلیمنٹ میں بتایا جائے کہ وہ کس مد میں خرچ ہوئے دیکھا جائے تو کفایت شعاری کمیٹی کی سفارشات چوں چوں کا مربہ ہیں۔ کمیٹی کے ارکان کو حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے تھا انہیں یہ تجویز ضرور دینی چاہیے تھی کہ پچھلے 40برسوں کے منتخب نمائندوں، فوجی حکمرانوں، ججز، بیوروکریٹس، فوجی افسروں سے ڈیکلریشن لیاجائے کہ اپنے اپنے شعبے میں آمد کے وقت ان کے اور اہلخانہ کے اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں۔ جو بھی شخص موجودہ اثاثوں کے جائز ہونے کے قانونی ثبوت فراہم نہ کرسکے اس کے اثاثے ضبط کرلئے جائیں۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال