ماسکو کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت

ماسکو میں افغانستان کے معاملات پر منعقد ہونے والی علاقائی ملکوں کے قومی سلامتی مشیروں کی کانفرنس میں پاکستان کی عدم ِ شرکت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔اس کانفرنس میں روس چین بھارت ایران تاجکستان قازقستان ازبکستان کرغیزستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر نے شرکت کی ۔اس کانفرنس میں میزبان ملک روس کے صدر ولادیمرپوٹن نے بنفس نفیس شرکت کی اور پاکستان کی عدم موجودگی کو محسوس کیا ۔اس کانفرنس کی دعوت ماسکو کے نمائندہ برائے افغانستان ضمیر قابلوف نے اسلام آباد آکر دی تھی ۔یہ افغانستان کے ان ہمسایہ یا قریب ترین ملکوں کا اکٹھ ہے جن کو افغانستان کے حالات براہ راست متاثر کرتے ہیں ۔پاکستان ان ممالک میں سرفہرست جو افغانستان کے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور ان حالات کی قیمت ادا کرتا ہے۔افغانستان کے حوالے سے ایک حل امریکہ پیش کر رہا ہے ۔وہ حل یہ ہے کہ افغانستان پر فوجی دبائو برقرار رکھا جائے ۔افغانستان میں دہشت گردی کا ہوا اس انداز سے کھڑا کیاجاتا رہے کہ یہاں ایک مکمل فوجی سرگرمی اور جنگ کا ماحول برقرار رہے ۔اس کے برعکس علاقائی ملکوں کا مفاد امن میں ہے ۔افغانستان میں جنگ اور امن دونوں کے اثرات کا سامنا سب سے پہلے پاکستان کو کرنا پڑتا ہے۔ڈان اخبار کے مطابق حکومت پاکستان کے ذرائع نے بتایا کہ کانفرنس میں بھارت کی موجودگی کے باعث پاکستان نے شرکت سے گریز کیا ۔پہلے تو اعلانیہ طور پر پاکستان نے اس موقف کا اظہار نہیں کیا مگر بعد میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے تسلیم کیا کہ پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی کیونکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے کئی دوسرے فورمز میں پاکستان پہلے ہی اپنا کر دار اداکر رہا ہے ۔اس کے لئے ایک اور بہانہ آف دی ریکارڈ بھی تراشا گیا کہ یہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرز کا اجلاس تھا اور اس وقت پاکستان میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرکا عہدہ خالی ہے ۔امریکہ کے ایک سیاسی تجزیہ نگار مائیکل کوگلمین نے وائس امریکہ کو بتایا کہ پاکستان اس مرحلے پر امریکہ
کے خلاف جانے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا جب پاکستان کو آئی ایم ایف کے شدید دبائو کا سامنا ہے اور امریکہ ہی اس کو کچھ ریلیف دلا سکتا ہے ۔ماسکو کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت نے بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایدوائزر اجیب دوال کو راجہ اندر بننے کا بھرپور موقع دیا ۔عین ممکن ہے کہ روسی حکام نے پاکستان کو چِڑا نے کے لئے اجیت دوال کو کھُل کھیلنے کا موقع دیا ہو مگر اجیت دوال کو اس اہم فورم پر خالی پچ مہیا کرکے چوکے چھکے لگانے کا موقع فراہم کیا۔ اجیت دوال نے کہا کہ بھارت افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا جب بھی افغانستان پر مشکل وقت آیا بھارت اس کے ساتھ کھڑا ہوگا ۔اس طرح علاقائی ملکوں کے اس فورم کو بھارت نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا ۔ظاہر ہے پاکستان کی طرف سے جواب دینے والا اور بات کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔چین اور روس کو مدعی سست گواہ چست بننے کی بھی کیا ضرورت تھی ۔ایران کے نمائندے نے کہا کہ اگر بیرونی ممالک افغانستان میں مداخلت نہ کریں تو یہاں امن قائم ہو سکتا ہے ۔اس اجلاس کے بعد اجیت دوال کی صدر پیوٹن سے پہلی بار باضابطہ ملاقات ہوئی اور دوال نے صدر پیوٹن کو مودی کا خصوصی پیغام پہنچایا ۔کئی مبصرین کے مطابق یہ میلہ بھارتی نمائندے نے لوٹ لیا ۔اس سے کچھ ہی عرصہ قبل بلاول بھٹو زرداری ماسکو کا دورہ کرکے توانائی کی خریداری پر بات چیت کر چکے تھے ۔یہ اس سلسلے کی تیسری میٹنگ تھی ۔نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کی ایسی ہی ایک میٹنگ بھارت میں بھی ہوئی تھی جس میں پاکستان نے شرکت نہیںکی تھی ۔بھارت میں ہونے والے اجلاس میں عدم شرکت ایک قابل فہم معاملہ ہے موجودہ حالات میں جب کشمیر کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات سمٹ اور سکڑ کر رہ گئے ہیں پاکستان کے کسی نمائندے کا بھارت جانا مناسب
نہیں تھا مگر ماسکو میں ہونے والی کانفرنس سے باہر رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔بھارت کی شرکت اگر اس کا جواز ہے تو پھر روس کی سرحد بھی براہ راست افغانستان سے نہیں ملتی ۔شاید معاملہ کچھ اور ہے۔یہ تاثر اب جڑ پکڑ رہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملے میں دوبارہ امریکہ کی لائن پر آچکا ہے ۔یہ تقریباََ جنرل پرویز مشرف کے دور کی واپسی ہے اور وہی منظرنامہ بحال ہوتا ہوا بھی دکھائی دے رہا ہے ۔جہاں ایک طرف دہشت گردی واپس آرہی ہے وہیںپاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی تیاریوں کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور امریکہ پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن یا کاروائی کی مسلسل ہلہ شیری دے رہا ہے۔امریکی اہلکار پہلی بار دہشت گردی کے جواب میں افغانستان کے اندر پاکستان کی جوابی کاروائی کے حق کا خوب پرچار کر رہے ہیں ۔ان باتوں سے طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان سرد جنگ کی کیفیت نہ سہی مگر سرد مہری ضرور پیدا ہو چکی ہے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اپنا پورا زور امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرنے پر صرف کئے ہوئے ہیں ۔ان کا زیادہ تر زور امریکہ اور یور پ کے دوروں پر ہے ۔ان کی زیادہ ضرورت امریکہ اور کینیڈاکی سرحد کی بجائے طورخم اور چمن میں ہے جہاں ایک ہمسایہ ملک کے ساتھ دوری اور فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے ۔افغانستان کے ساتھ معاملات طے کرنے پر پاکستان کا مخمصہ بڑھتا جا رہا ہے ۔مغرب بھلے سے طالبان سے خفا ہو اور ان کی وضع قطع اور پالیسی سے ناراض ہو مگر پاکستان کو ایک ہمسائے کے طور پر افغانستان کے ساتھ ہی نباہ کرنا ہے ۔بلاول کاافغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ ان کا رویہ اکھڑ ا اکھڑا ساہے ۔پشاور دھماکے کے بعد بھی کسی ذمہ دار شخص نے افغانستان جانا گوارا نہ کیا ۔پاکستانی حکام نے بیان دیا جس کے جواب میں طالبان حکام نے بھی وضاحتی بیان دے دیا ۔پاکستان امریکہ کے دبائو میں طالبان حکومت کے ساتھ فاصلہ بنائے ہوئے ہے اور طالبان کو خدشہ ہے کہ پاکستان ان کے ملک میں کسی دبا ئو کا شکار ہو کر کاروائی کر سکتا ہے ۔یہ ایک خطرناک صورت حال ہو گی جس کے بہت تباہ کن اثرات ہو ں گے ۔اس طرح پاکستان افغانستان میں امن سے زیادہ جنگ کی کوششوں کا حصہ بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال