”غباروں کی عالمی جنگ”

غباروں کا یوں تو جب نام آتا ہے تو ذہن میں عام طور پر بچوں کے کھیلنے کودنے یا پھر کسی کی سالگرہ میں سجاوٹ کیلئے استعمال ہونے کے غرض سے ایک نقشہ تیار ہوجاتا ہے مگر اب2023ء میں اگر اس کا ذکر جنگ و جدل جاسوسی اور ہتھیاروں کے لئے استعمال کے طور پر ہو تو غلط نہ ہوگا۔ امریکہ کی فضائی حدود میں ملنے والے چینی غبارے نے ایک عالمی مسئلے کی صورت اختیار کرلی ہے جس کے بعد سے ان دونوں عالمی قوتوں کے درمیان مقابلہ شروع ہوگیا کہ کون کس کی فضا میں زیادہ جاسوس غبارے بھیجے گا اور مستقبل میں اس کے کیا ممکنہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے2004ء سے جب امریکہ کی فضا میں (یو ایف اوز) نامعلوم اڑنے والی شے نمودار ہونا شروع ہوئی۔ امریکی فضائیہ نے تو شروع میں اس کا کئی بار پیچھا کیا مگر ہمیشہ یہ غبارہ نما شے امریکی فضائیہ اور نیوی دونوں کو چکما دیکر اوجھل ہو جاتی تھی۔ یہ سلسلہ2023ء تک جاری رہا اور کم و بیش400سے زائد مرتبہ اسے امریکی فضائیہ نے اپنے ریڈار میں دیکھا مگر یہ اس کے سامنے محض بے بسی کی تصویر بن کر دکھائی دیتے رہے، پنٹاگون تو اسے خلائی مخلوق کا کوئی انتہائی ایڈوانس قسم کا اسپیس شپ سمجھتی رہی، اگرچہ بارہا یہ قیاس بھی ہوتا رہا کہ یہ غبارہ چین یا روس کا کوئی جاسوس غبارہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ غباروں کا جاسوسی کے طور پر استعمال کوئی نئی ٹیکنالوجی نہیں تھی، امریکہ اور سوویت یونین ماضی میں سرد جنگ کے دوران بھی ایک دوسرے پر نظر رکھنے کے لئے اسی طرز کے جاسوس غباروں کا استعمال کر چکے ہیں جبکہ اس سے قبل اٹھارویں صدی سے اور جنگِ عظیم کے شروع ہونے سے پہلے تک غباروں کو بطور جنگی جہاز بھی استعمال کیا جاتا تھا جو اسلحہ سے لیس دشمن ملک پر بمباری کے لئے استعمال ہوتے تھے مگر اس معاملے میں تب کوئی اس نتیجے پر نہیں پہنچا تھا کہ کسی ملک پر الزام لگایا جائے جب تک پنٹاگون کو کوئی ٹھوس ثبوت نہ مل جائے تاہم بہت لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی گردش کرتا ہے کہ2004ء سے یہی یو ایف اوز امریکی فضاء میں تیرتے ہوئے جاسوسی کرتے رہے تو اچانک اب کیسے امریکہ کی پوری حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو ہوش آیا کہ چین کے ان جاسوس غباروں کو گرانا اب قومی غیرت کا سوال بن چکا ہے؟ ممکنہ طور پر اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پہلے یہ جاسوس غبارے فضاء میں اس قدر اونچائی پر ہوتے تھے کہ جسے صرف ریڈار یا مخصوص دوربینوں کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ تب امریکی حکومت کے پاس یہ جواز تھا کہ اسے خلائی مخلوق کا اسپیس شپ کہہ کر اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جا سکے اور دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امریکہ پہلے ہی یوکرین جنگ میں روس سے بالواسطہ طور پر برسرِ پیکار ہے اور اگر ایسے میں چین سے بھی کوئی پنگا لیا گیا تو یہ گویا چین اور روس کو امریکہ کے خلاف اتحاد قائم کرنے کی کھلی دعوت ہوگی جس کا امریکہ کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا، مگر ان کی بدقسمتی تب شروع ہوئی جب یہ اس قدر نیچے اڑان بھر رہا تھا کہ عام آنکھ بھی اسے دیکھ پا رہی تھی اور یوں28 جنوری کو ایک امریکی شہری نے جہاز میں سفر کرتے ہوئے اسے امریکی ریاست مونٹانا کی فضاء میں اڑتے ہوئے پہلی بار دیکھا اور یوں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی،
کئی دن تک تو امریکی سیکرٹری خارجہ اینتھونی بلنکن نے یہ جواز دیکر اسے گرانے سے انکار کیا کہ یہ غبارہ اتنی اونچائی پر ہے کہ اس سے امریکی فوجی تنصیبات کی جاسوسی کرنا ممکن نہیں جبکہ چینی وزارتِ خارجہ نے بھی امریکہ سے معذرت کرتے ہوئے یہ بیان جاری کیا کہ یہ غبارہ محض موسم کا جائزہ لینے کی غرض سے بھیجا گیا تھا جو امریکی فضاء میں غلطی سے داخل ہوا لہٰذا اب اسے نظر انداز کرنا بائیڈن انتطامیہ کے لئے مشکل تھا مگر پھر ایک اور سوال یہ بھی گردش کرتا ہے ذہن میں کہ امریکہ کو اگر معلوم بھی تھا تو اسے اتنے عرصے سے کیوں نہیں گرایا گیا ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان کوئی ایسی خفیہ ڈیل تھی کہ جس کی وجہ سے امریکہ اسے گرانے سے خائف تھا کیونکہ جب ریپبلکن پارٹی اور امریکہ کی سول سوسائٹی کی جانب سے بائیڈن پر دبائو بڑھنے کے بعد اس چینی غبارے کو گرایا گیا تو اس کے فوراً بعد چینی وزارتِ خارجہ نے بھی دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی فضائی حدود میں شنگھائی کے مقام پر امریکی جاسوس غباروں کو گرایا۔
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ چین نے2018 ء میں اسی طرز کے غباروں کو کرہ قائمہ میں اپنے ہائپر سونک میزائلوں کے تجربے کے لئے ڈپلوئے کیا تھا اور چینی ملٹری اس طرز کے جاسوسی طریقوں کی معترف بھی تھی کیونکہ یہ غبارے دیگر جاسوسی طریقوں میں سب سے سستے اور کارگر تھے جس کی وجہ سے اس کی زیادہ پیدوار بھی آسان تھی، فائننشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق چین نے اس طرز کے غباروں کی پیداوار کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی کو دیا تھا مگر سب سے زیادہ حیرت پوری دینا کو اس بات پر ہوئی کہ چین سے کئی گنا زیادہ ایڈوانس ٹیکنالوجی سے لیس امریکہ
کیسے کسی ایسے ملک کے جاسوس غبارے کو کافی عرصے تک اپنی فضاء میں اڑنے دے رہا تھا اور اسے بھنک تک بھی نہیں پڑی، یہ تو گویا چین کی طرف سے باقاعدہ بگل بجا کر اعلان کرنے کے مترادف ہے کہ ”اب ہم تمہیں کھلا چیلنج دینے کے لئے تیار ہیں” اس سے پہلے امریکہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چین اسے فوجی طرز پر اتنا بڑا سرپرائز دینے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ انہیں یہی لگتا تھا کہ چین انہیں کاروباری دماغ کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو محض بی آئی آئی اور سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے تنگ گرے گا، چنانچہ امریکہ نے نہ صرف چین کے خلاف بھارت، جاپان، آسٹریلیا اور برطانیہ کو ساتھ ملا کر کواڈ گروپ اور (اے یو کے یو ایس) جیسے محاذ کھولے بلکہ چینی بحری حدود میں اپنے جنگی بحری بیڑے بھیجے اور آسٹریلیا کو چین کے خلاف استعمال کرنے کیلئے جدید جوہری آبدوزوں کو بھی بھیج کر ایک طرح سے چین کا امتحان لیا کہ وہ کس طرح سے ردِعمل دے گا، اس کے برعکس چین نے بجائے جارحانہ ردِعمل دینے کے صبر کا مظاہرہ کرکے امریکہ کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ انہیں اس طرح کے ہتھکنڈوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہ شاید امریکہ کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی کہ اس نے چین کی پالیسی کو سمجھا ہی نہیں۔ قدیم چینی مفکر سن زو نے اپنی کتاب ”آرٹ آف وار” میں لکھا ہے کہ ”جنگ کا سب سے بڑا فن یہ ہے کہ دشمن کو بغیر لڑے کیسے زیر کرنا ہے” لہٰذا چین اپنے قدیم مفکر کے اسی فلسفے پر اس وقت عمل پیرا ہے، روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد اب چین سمجھ چکا ہے کہ امریکہ صرف باتوں کا شیر ہے، وہ کبھی بھی روس یا چین سے براہِ راست جنگ کرنے کی غلطی نہیں کرے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چین بھی اب امریکہ کو اسی کی زبان میں جواب دے کر غباروں کی جنگ لڑ رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی