آٹے کا سوال

پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان نے کہا ہے کہ سستے اور معیاری آٹے کی فراہمی کوئی عیاشی نہیں، اگر کوئی مل مالک یا نانبائی اپنا کاروبار بند کرکے لوگوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عارضی طور پر بند نہیں کرنا چاہیے بلکہ انتظامیہ کو چاہیے کہ اسے مستقل طور پر بند کرے۔ روٹی کوئی عیاشی نہیں، ضلعی انتظامیہ کسی کے ہاتھ بلیک میل نہ ہو۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ ایک انتہائی افسوسناک امر ہے کہ شارٹیج کے دنوں میں بعض لوگ منافع کمانے کے لئے لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو کسی صورت درست نہیں اور یہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ چیف جسٹس کے استفسار پر صوبائی حکومت کے نمائندوںنے عدالت کو بتایا کہ جب بھی روٹی کی قیمت کم کی جاتی ہے تو نانبائی ایسوسی ایشن ہڑتال کرتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بعض فلور ملز مالکان بھی یہی رویہ اختیار کرتے ہیں کہ ملوں کو بند کر دیا جاتا ہے جس سے آٹے کی فراہمی متاثر ہوتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ روٹی کوئی عیاشی نہیں ہے یہ ضرورت ہے اور حکومت کو اس بات کی ذمہ داری لینی چاہیے تاکہ ہر کسی کو معیاری آٹا سستے قیمتوں پر دیا جا سکے۔ عدالت نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی کہ وہ مناسب و سرکاری ریٹ پر اچھی و معیاری آٹے کی فراہمی کو یقینی بنائیں ۔چودہ مئی کواگلی سماعت پر کیا صورتحال سامنے آتی ہے وہ عدالتی معاملہ البتہ اس دوران عدالت کے حکم پرکس حد تک عملدرآمد کیا گیا اس سے انتظامیہ کوعدالتی احکامات پرعملدرآمد کے حوالے سے سنجیدگی کا اندازہ ہو گاعدالت نے اگرچہ فی الحال حکم جاری نہیں کیا ہے تاہم معزز جج نے اس موقع پر جوریمارکس دیئے ہیں وہ صورتحال سے آگاہی ہی نہیں بلکہ نسخہ کارگربھی ہے جس پراگر انتظامیہ توجہ دے اور فلور ملز مالکان کی بلیک میلنگ اورنانبائیوں کے دبائو میں نہ آئے قوانین پرعملدرآمد میں سنجیدگی اختیار کی جائے تو شہریوں کو کم وزن روٹی اور دوگنی قیمت کی وصولی سے وقتی طور پر ریلیف مل سکے گا مگراب تک انتظامیہ کا جو رویہ اور طرز عمل رہاہے اسے دیکھ کر نہیں لگتا کہ انتظامیہ دبائو میں نہیں آئے گی انتظامیہ کی ناکامی کایہ واضح ثبوت بار بار سامنے آتا رہا ہے کہ ایک جانب نانبائیوں کی انجمن سے مذاکرات کرکے انتظامیہ روٹی کا وزن اور نرخ کا اعلان کرتی رہی ہے اور ساتھ ہی نانبائیوں نے اپنی مرضی کے وزن کی روٹی خود ساختہ نرخوں پر روٹی اسی روز فروخت بھی ہوتی رہی جب انتظامیہ کی کارکردگی یا پھر کمزور عملداری کا یہ عالم ہوتو اس سے توقعات کی وابستگی کار عبث ہو گی لیکن چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اور آئندہ پیشی میں ممکنہ طور پر صورتحال بہتر کرنے کے حوالے سے اقدامات کا عدالت استفار کر سکتی ہے اس لئے موہوم امید کی جا سکتی ہے کہ انتظامیہ منہ چھپائی کے لئے سہی کچھ متحرک ہوگی۔

مزید پڑھیں:  ''دوحہ طرز مذاکرات'' سیاسی بحران کا حل؟