کعبے”اس” منہ سے جائو گے غالب؟

جیل بھرو تحریک کے ڈرامے دیکھ کر ایک اقلیتی رہنما جے سالک یاد آ گئے، یاد کیا آئے بلکہ ہم تو ان کا نام بھول چکے تھے، اور انہیں یاد کرانے میں ہمارے ایک اور اقلیتی کرمفر مانے جو ادبی سرگرمیوں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں،روف خرم اہم قومی دنوں بلکہ اقلیتی برادری سے ہوتے ہوئے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مواقع پر بھی حلقہ ارباب ذوق میں خوبصورت بڑے بڑے کیک لا کر ہماری خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں، جے سالک کا نام یاد کرانے میں ہماری مدد کی، جے سالک بھی اکثر ایسے ہی ڈرامے کیا کرتے تھے،کبھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں بوٹ اتار کر چلے جایاکرتے تھے، کبھی کچھ اور تماشا لگا کر میڈیا میں”طوفان” لے آتے، حد تو انہوں نے اس وقت کی جب انہوں نے بعض عوامی مطالبات منوانے کیلئے اسلام آباد میں خود کو زنجیروں میں جکڑ کر ایک پنجرے میں بند کر دیا اورمستزاد کہ اس موقع پر انہوں نے اپنے سر میں راکھ بھی ڈالی اور چہرے کو بھی راکھ آلود کر دیا، اس سے پہلے یعنی دھرنا دینے سے پہلے انہوں نے پنجرے میں بیٹھ کر غالباً کسی” گدھا گاڑی” پر اسلام آباد کی مختلف سڑکوں پر گشت بھی کیا ، اس موقع پر سیاسی رہنمائوں میں سے صرف مرحوم قاضی حسین احمد نے ان کے پاس پہنچ کر اظہار یکجہتی کیا، جے سالک کے جس پنجرے کو لوگ بھول گئے تھے، تحریک انصاف کے کارکنوں نے اس کی یاد پھر دلا دی اور گزشتہ روز لاہور میں بعض ایسے مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے جن میں ” پنجرہ نما جیل ” بنا کر جیل بھرو تحریک کا ڈرامہ رچایا گیا، ایسے ہی ایک پنجرے پر ایک بورڈ بھی نصب تھا جس پر ” حلقہ این اے120” لکھا تھا، تاہم یہ ڈرامہ بری طرح فلاپ ہو گیا کیونکہ تحریک کے رہنمائوں اور کارکنوں نے جیل بھرو تحریک کا صرف نام سنا تھا، اس کی حقیقت ان کو معلوم نہیں تھی، دراصل وہ جو کہا جاتا ہے کہ”دودھ کا مجنوں” تو انہیں اس کی تفصیل کا کچھ پتہ نہیں بلکہ اس صورتحال پر وہ مصرعہ یاد آ گیا ہے، کہ خوں لگا کے شہیدوں میں نام کر جائیں، تحریکیں رہنمائوں کی قربانیوں سے چلتی، آگے بڑھتی اور کامیاب ہوتی ہیں، دودھ کے مجنوں اگر قربانیاں دینے سے گریز کریں گے تو ایسی تحریکیں مذاق بن کر رہ جاتی ہیں، خود گھر پر چھپ کر دوسروں کو”قربانی کا بکرا” بنا کر مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا، پہلے روز پورے لاہور سے گنتی کے چند رہنما اور کچھ کارکنوں نے پولیس وین میں بیٹھنے کی غلطی کر کے باقی علاقوں کے”انصافیوں” کو ہوشیار کر دیا تھا۔ شاہ محمود
قریشی، اسد عمر، اور دیگر رہنمائوں کو اپنی غلطی کا احساس تب ہوا جب پولیس وین انہیں لیکر کسی ”نامعلوم” منزل کی طرف گامزن ہوئی، شاہ محمود کو اس موقع پر یہ کہتے سنا گیا کہ ان کے ساتھ تو سی سی پی اور دفتر تک لے جانے کی انڈر سٹینڈنگ ہوئی تھی یعنی وہاں”چائے شائے” کافی پلوانے کے بعد واپس جانے کا سمجھوتہ ہوا تھا، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک پوسٹ میں ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی مایوسی اورلہجے میں بے بسی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے، بعد میں جب یہ صورتحال واضح ہو گئی اور ان رہنمائوں کو صوبے کے مختلف جیلوں میں منتقل کرنے کی خبریں وائرل ہوئیں تو ان کے اہل خانہ نے ان کی ضمانت کیلئے درخواستیں دائر کر دیں، شاہ محمود قریشی کو اپنی” بیماری” یاد آ گئی جس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ اس بیماری کے پرانے مریض ہیں، اس بات کی تصدیق متعلقہ جیل حکام نے بھی جیل میں ان کے طبی معائنے کے بعد جیل ڈاکٹر کی تصدیق کے بعد ان کی ”فریاد” کو کنفرم کیا،اس پر ہمیں ایک فلمی ڈائیلاگ یاد آ گیا جس
میں ایک کردار دوسرے کو خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے،” میں نہ کہتا تھا کہ پنگا مت لو’پنگا مت لو، مگر تم باز نہیں آئے”۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایک اور رہنما کو دل کے عارضے کی شکایت سامنے آئی ہے، ، ایسے اکثر مریضوں کے کمروں سے ماضی میں ”شہد” کی بوتلیں برآمد ہونے کی خبریں بھی ہم سنتے رہے ہیں، اگرچہ انہی کی صفوں میں آصف علی زرداری(لگ بھگ بارہ سال) جاوید ہاشمی تقریباً چار ساڑھے چار سال،،خیبر پختونخوا کے شہید قمر عباس(وزیر جیل سے اسیر جیل تک) کے مصنف اور میاں نواز شریف بمع دختر نیک اختر نے بھی سخت حالات میں قید گزاری لیکن آج تک ان کے منہ سے کسی نے کوئی شکایت نہیں سنی، اس لئے اب یہ صرف ایک دن کے قید کے بعد ہی شکایات کے انبار لگائے گئے اور ضمانتوں کیلئے درخواستیں دائر کرنے کی خبریں آنے لگیں ہیں تو سوال تو بنتا ہے کہ حضور”پنگا کیوں لیا؟” یہاں ،واجہ آصف کا وہ مشہور زمانہ ڈائیلاگ بھی یاد آ رہا ہے لیکن ان کے کہے ہوئے الفاظ سے چونکہ” یوتھیوں” کی صفوں میں بلڈ پریشر اچانک ہائی ہو جاتا ہے اس لئے خواجہ آصف کی بجائے مرزا غالب کے ایک شعر میں ان کی روح سے معذرت کرتے ہوئے تحریف کرتے ہوئے کہنے دیجئے
کعبہ”اس؟” منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی!!
ادھر پشاور میں بھی یہ ڈرامہ بازی زیادہ موثر نہیں رہی، ایک سابق ممبر صوبائی اسمبلی نے یوں تماشا کیا کہ پولیس وین کا دروازہ کھول کر وکٹری کا نشان بنایا اور پھر وہ دوڑ لگائی کہ سبحان اللہ، یعنی وکٹری کے نشان کے بعد”عبرت کا نشان ”۔ اتنا ضرور ہے کہ ایک جم غفیر نے شہر کی سڑکوں پر جلوس نکال کر سنٹرل جیل کے دروازے پر مظاہرہ کیا، مگر پولیس کی اس وین میں بیٹھنے سے یہ لوگ گریزاں رہے جو خاص انہی کیلئے کھڑی کی گئی تھیں اور پولیس کی جانب سے میگا فون پر اعلانات کے باوجود کہ جنہوں نے جیل بھرو تحریک کا حصہ بن کر جیل جانا ہے وہ وین میں بیٹھیں، مگر کوئی بھی قدم آگے بڑھانے کو تیار نہیں تھا، یہاں تک کہ پرویز خٹک کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پولیس وین میں جیل جانے کو تیار نہیں تھے اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر”رفو چکر” ہو گئے، بعض لوگ گرفتاریاں دینے کی بجائے سیلفیاں لینے میں مصروف رہے جبکہ ایک تصویر روزنامہ اخبار کے صفحہ اول پر شائع ہوئی ہے جس میں تحریک کے بعض رہنمائوں کے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے نیچے جو کیپشن لکھا ہوا ہے اس نے ہمیں حیران کر دیا ہے، کیپشن یہ ہے کہ۔۔۔فلاں فلاں فلاں گرفتاری دینے کے بعد پولیس وین میں وکٹری کا نشان بنائے بیٹھے ہیں، حیرت ہمیں اس بات پر ہوئی کہ پولیس کی وہ کونسی وین ہے جس کے اندر دیوار پر تصویریں آویزاں ہوتی ہیں؟ اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ پولیس وین نہیں کسی گھر کی بیٹھک ہے جس میں کرسیاں، سٹول بھی ہیں اور دیوار پر تصاویر بھی آویزاں ہیں، بہرحال خبر یہ ہے کہ پشاور میں مبینہ طور پر صرف ایک شخص نے گرفتاری دی ہے اور باقی ڈرامہ بازی کر کے غائب ہو گئے، یعنی بقول افتخار عارف
چراغ مجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا

مزید پڑھیں:  کالی حوریں