بحران کی انتہا

مشکل امر یہ ہے کہ سیاستدان باہم مل بیٹھنے کو تیار نہیں جس کے اثرات اب ملکی اداروں کو متنازعہ بنانے اور ان پر تنقید کی صورت میں سامنے آنے لگی ہیں سیاسی معاملات جب سیاسی طور پر حل کرنے کی بجائے عدالتی طور پر حل کرنے کا طریقہ اپنایا جائے تو ایسا ہونا فطری امر ہے ۔اب تک تو ملک میں سیاسی بحران تھا اب آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے یہ مسائل اہل سیاست کے پیدا کردہ ہیں لہٰذا سیاسی جماعتوں ہی کو انہیں نمٹانے کے لئے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں کے اندر اب اس کا ادراک ہونے لگا ہے اور اس ضمن میںحکمران اتحاد کے اندر سے کشیدگی کے خاتمے کے لیے آوازیں بلند ہونے لگی ہیں اخباری اطلاعات کے مطابق موجودہ سیاسی، معاشی اور عدالتی بحرانوں کا متفقہ حل نکالنے پر زور دیا گیا ہے۔ نیشنل پریس کلب میں سول سوسائٹی کے گروپ اور ثالثوں سے ملاقات کے بعد حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)میں شامل6جماعتوں نے سیاسی فورسز کو مل بیٹھنے پر زور دیا۔ملاقات میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم)، بلوچستان نیشنل پارٹی(بی این پی )(مینگل)، نیشنل پارٹی(این پی)، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم)، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی)اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی(پی کے میپ)کے نمائندوں نے شرکت کی۔اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں تمام سیاسی جماعتوں اور گروپس نے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے کثیرالجماعتی کانفرنس (ایم پی سی)کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا گیا ۔ ثالثوں کے کوآرڈینیٹر کی جانب سے حکمران اتحاد پی ڈی ایم پر آئین کی بالادستی یقینی بنانے کے لیے قانون سازی پر زور دیاگیا ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)مجوزہ ایم پی سی کی دعوت قبول کریں۔ تاہم ایم پی سی کی تاریخ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔مذکورہ گروپ کی جانب سے موجودہ بحرانوں پر قابو پانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے یہ دوسری کوشش ہے۔قبل ازیں مارچ میں گروپ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی تھی اور ان پر زور دیا تھا کہ انتخابات پر وسیع تر قومی اتفاق رائے کے لیے حریف جماعتوں کے ساتھ بیٹھیں۔پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے اجلاس کے بعد تصدیق کی تھی کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے مجوزہ ایم پی سی میں شرکت پر اتفاق کرلیا ہے۔ان تمام کوششوں کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ حکمران اتحاد ببانگ دہل مذاکرات پر آمادہ نہیں اور اورتحریک انصاف کے قائد عمران خان خود کسی مکالمہ کا حصہ نہیں بننا چاہتے اور اپنی ٹیم کی شمولیت کا صرف عندیہ ہی دینے لگے ہیں ان کے حوالے سے جب بھی معاملات میں سختی آتی ہے تو وہ ملکی مفاد میں مذاکرات اور مکالمے پر آمادگی کا بیان دیتے ہیں بعد میں بیان تبدیل کر دیا جاتا ہے جس سے قطع نظر حکمران ا تحاد کا رویہ بھی اب سخت سے سخت تر ہوتا جارہا ہے یہاں تک نظر آتا ہے کہ اب ان کو حکومت جانے کی بھی پرواہ نہیں مشکل امر یہ ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی اور انتخابات کا انعقاد اسی ماحول میں ہوا تو اگر کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل کرکے تنہا حکومت سازی کی پوزیشن میں آتی ہے تو وہ الگ صورتحال ہو گی مگرایسا ممکن نظر نہیں آتا اس صورت میں بعد میں بھی مذاکرات اور مکالمہ ہی سیاسی ضرورت ہوں گے ان حالات و واقعات کے تناظر میں کوئی چارہ اس کے علاوہ نظر نہیں آتا کہ سیاسی قیادت کو ہٹ دھرمی ترک کرکے مذاکرات کاراستہ اختیار کرنا چاہئے۔ ارباب اقتدار سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے فکر مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ حالات جمہوری طور طریقوں سے معمول پر آ جائیں مگر اس کیلئے اپوزیشن کی مثبت سوچ بھی ضروری ہے۔ حصول اقتدار کیلئے اداروں پر حملے، پولیس، رینجرز حتی کہ فوج کو بھی تضحیک کا نشانہ بنانا قومی وقار اور یک جہتی کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ محض اس مفروضے کے سہارے کہ پوری قوم میرے ساتھ ہے اور میں اس کی طاقت کے بل پر سب کو زیر کر سکتا ہوں، محض خام خیالی ہے۔ یہ جمہوریت کی روح کے بھی سراسر خلاف ہے۔ جمہوریت اجتماعیت کا تقاضا کرتی ہے یعنی سب کو مل جل کر اتفاق رائے سے ملک و قوم کے بارے میں فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس کے برخلاف اٹھایا گیا کوئی بھی قدم انارکی اور لاقانونیت کا سبب بنے گا۔ ملک کی موجودہ صورتحال عوام کی اکثریت کیلئے ناقابل قبول ہے۔ اس لئے اس سے پہلے کہ خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہو جائے ۔ ارباب اقتدار، بالخصوص اپوزیشن کے رہنمائوں کو عقل سلیم سے کام لینا چاہئے اور اپنے رویوں میں توازن پیدا کرنا چاہئے۔ دھونس دھمکی اور تشدد کے طور طریقوں سے اجتناب نہ برتا گیاتو قوموں کی برادری میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔ اقتصادی بدحالی کے اس مرحلے میں ملک سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  ''دوحہ طرز مذاکرات'' سیاسی بحران کا حل؟