انسان کی بیگانگی اور معاشرتی لا تعلقی

ایک دوست سرکاری محکمہ سے بطور ہیڈ کلرک ریٹائر ہوا ہے ۔ ایک دن کہنے لگا کہ اس صنعتی دور میں ملازمت نے زندگی سے لطف لینے کی بجائے مجھے صرف نوکری پیشہ بنا دیا اور اب سبکدوشی کے بعد یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ نوکری نے انسان رہنے نہیں دیا ۔ زندگی کے چالیس سال محنت کرنے والی ٹیم کا حصہ یا رکن رہا ، کلرک یا بیوروکریٹ کہلایا جس کے پاس اپنے طور پہ کسی کام میں پہل کرنے اور فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا اور وہ مشین بن کر وہی کام کرتا رہتا ہے جو اس کے محکمہ نے اُسے سونپا ہوتا ہے ۔ ہمارے آنے جانے ، اُٹھنے بیٹھنے اور کام کرنے کے طور طریقے ہمارے ادارے نے متعین کیے ، یہاں تک کہ میل ملاپ کے آداب بھی تجارتی بنیادوں پر طے ہوئے ۔ اپنوں سے اور اپنے احساسات سے ہی بیگا نہ رہا جبکہ دفتر میں سارے رشتے بناوٹی اور بے جوڑ سے تعلقات بنے ۔ ایک مخصوص روٹین کا ہنسی مذاق ، غصہ ، مسکراہٹ اور دفتری رکھ رکھاؤ بجا لاتے رہے ۔ تمام دعوتوں میں بیوپاری تقاضوں کے مطابق شریک ہوتے رہے ۔ جب میری عمر ایک طویل مدت تک تراشی ہوئی گذران بن کر رہ گئی اور اسی جال میں اُلجھا رہا تو اب یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ مَیں ایک محبت کرنے والا انسان ہوں ۔ اب فارغ ہوں تو اپنے بچوں ، عزیزوں اور دوستوں کے بارے سوچتا ہوں ، بس پیار کی خواہش میرے اندر اُٹھ اُٹھ کر ڈوبتی ہے اور ڈوب ڈوب کر اُبھرتی چلی جاتی ہے ۔
مَیں نے اس کی باتوں میں قدرے بے بسی کی لہر بھی پائی جو شاید ملازمت کے دوران بیوی کی وفات سے پیدا ہوئی ہو مگر یہ ضرور اخذ کیا کہ ہم لوگ اپنے اپنے امور میں یہ بھول جاتے کہ زندگی ایک بار ملی ہے جس کے ساتھ خوشیاں ، دکھ ، اُمیدیں ، اندیشے ، مایوسیاں اور سب سے بڑھ کر محبتیں اور جدائیاں شامل ہیں ۔ اس صنعتی دور میں چاہے کوئی نوکری پیشہ ہے ، بیوپاری ، معلم ، ہنر مند اور اس کے علاوہ دیگر شعبوں کے افراد ، یہ سب انسان کی بجائے اب مشین کی محبت میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے اہل خانہ اپنے اپنے ہاتھوں میں ایک چھوٹی سی مشین لیے ایک دوسرے سے بے خبر ہوتے ہیں ۔ چھٹی کے روز خاص کر ملازمین ، کاروباری حضرات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوشگوار وقت گزارنے کی بجائے کار موٹر سائیکل دھونے اور گھر کی کسی ٹوٹ پھوٹ کو مرمت کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ یہ بیگانگی اس لیے بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ ایک اکثریت اپنے رشتوں کے تقاضے پورے کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کرتی اور مشینی پرزہ کی طرح دوسروں کے مفاد میں زندگی بسر ہو رہی ہوتی ہے ۔ انسانی رشتے یا محبتیں جوڑنا مشینی پرزوں کے بس کا روگ نہیں ہوتا ۔ وہ رشتے ناطے جو ہمیں بچپن میں
نصیب ہوتے ہیں ، کبھی تو جوانی میں تو کبھی اس کے بعد بیوپار کی دُنیا میں غرق ہو جاتے ہیں ۔ ان رشتوں اور رفاقتوں کا مستحکم اور جاندار ہونا تو تب ممکن ہے جب یہ محبت کا رشتہ ذاتی بھی ہو ، سماجی بھی اور باہمی تعلق میں رہنے والوں کو اپنی آزادی قائم رکھنے کی ضمانت بھی دے ۔ ایک انسان میں اپنوں سے جڑے رہنے یا انٹر پرسنل کہلانے والے رشتے کی خواہش بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہی ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے رشتے ہی انسانی نسل کو ایک ٹھوس بندھن میں باندھتے ہیں ۔ خاندان ، قبیلہ اور معاشرہ سب انہی کے بندھنوں سے بندھے ہوتے ہیں ، اگر یہ رشتے قائم نہ رکھے جا سکیں تو پھر انسان بے معنی زندگی جی کر آخر فنا ہو جاتا ہے ۔ ہمارے کالج کے ایک پروفیسر جب بھی انسانی تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے تو ہمیشہ یہی کہتے کہ انسان کو انسان کی حیثیت میں قبول کرو اور دُنیا کے ساتھ اس کے رشتے کو بھی انسانی رشتے کی حیثیت میں قبول کرو تو تم محبت کا تبادلہ محبت کے ساتھ کر سکتے ہو اور اعتماد کے بدلے اعتماد لے سکتے ہو ۔
اس بات سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ محبت کے رشتوں کے بغیر انسانیت ایک دن بھی نہیں گزار سکتی اور معاشرہ سے لا تعلقی انسان کو تنہا کر دیتی ہے۔
یوں یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر ہماری محبت ، چاہت اور دوستی دوسرے لوگوں یعنی اپنوں میں محبت کا جذبہ پیدا نہیں کر سکی تو پھر اس
تعلق اور اس دوستی کو بد نصیبی ہی سمجھنا چاہیے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری محبت بھری دوستی کے اثر سے ہمارے اپنوں کے اندر بھی ایسا جذبہ پیدا ہو جو اُسے بیو پاری رشتوں کا مخالف بنا دے ۔ انسانیت کے سامنے یہ سوال ہمیشہ سے رہا ہے کہ اس کی اصل ذمہ داری کیا ہے ۔کیا صدیوں سے جاری انسان کی ہونے والی ذلت کو روکنا ، اپنی ذات سے بیگانگی اور معاشرہ سے لاتعلقی کو ختم کرنا ممکن ہے ؟ سرمایہ داری نظام کا بڑا فلسفی کانٹ یہی کہتا رہا کہ کسی شخص کو دوسرے شخص کے مقاصد پورے کرنے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے کہ تمام انسان از خود ایک مقصد ہوتے ہیں ۔ اسی باعث اُس نے مساوات اور جمہوریت کا تصور دیا اور انسان کی بیگانگی کو ختم کرنے کا نعرہ لگایا لیکن آج حالت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی دُنیا ہی پیار کی دُنیا کی سب سے بڑی دشمن ہے ۔ مختلف مذاہب نے محدود سطح پر لوگوں کو اپنے پیغام کا مخاطب بنایا جبکہ اسلام کے پیرو کاروں کو اللہ نے ایک عالمگیری تصور سے نوازا۔ اسلام نے ساری مخلوق کو خدا کا کنبہ مانا ہے اور تمام مخلوق کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا حکم دیا ہے ۔ تکریم آدم کا تصور انسان کی عظمت کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ اللہ نے انسان کو صاحب ارادہ و اختیار کیا ہے ، اس لیے نہ وہ کسی کے تابع رہ سکتا ہے ، نہ اپنی ذات سے بیگانہ اور نہ اپنے معاشرہ سے لا تعلق ۔ اس نظام حیات کی پاسداری انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے ، انسان کو پیدا کیا گیا تا کہ اس نظام کا حصہ بن کر معاشرے میں توازن قائم کرنے کا اہل بن سکے ۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں