غضب کیا جوتیرے وعدے پہ اعتبار کیا

پشاور شہر کے مختلف علاقوں میں سوئی گیس کی بندش اور کمی کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کی شدت میں روز بروز تیزی آتی جارہی ہے۔صوبائی دارلحکومت پشاور میں رہتے ہوئے عوام ایل پی جی یا لکڑی استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اندرون و بیرون شہراور مضافات سے سوئی گیس کی بند اور شدید کمی کی وجہ سے خواتین کو گھریلو امور کی انجام دہی میں سخت مشکلات کا سامنا ہے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ روز بروز بڑھتا جارہاہے عوامی حلقوں نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ سرکولر روڈ پر سی این جی سٹیشنز کی وجہ سے بھی اندرون شہر کے مختلف علاقوں میں گیس کی کمی کا سامنا ہے حکام گیس محکمہ کے ذمہ داروں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھی شہر میں گیس کی ابتر صورتحال پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ ایک جانب گیس کی قیمتوں میں اس سال کے اندر کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے جن صارفین کے بل ڈھائی تین سو سے زائد نہیں آتے تھے ان سے تین پونے تین ہزار روپے بلوں کی وصولی شروع کی گئی ہے مگر اس کے باوجود گیس نہیں آتی اور بلوں کی باقاعدگی سے وصول ہورہی ہے اس ناانصافی پر صارفین کے پاس احتجاج اور صارفین کی عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ چارہ نہیں لیکن ہر دو حربے بھی مسئلے کا شافی حل نہیں گرمیوں میں گیس کی ناپیدگی حیران کن ہے متعلقہ حکام نئی لائنیں بچھانے کا لالی پاپ حکام کو دیتے آئے ہیں مگر دوسرا تیسرا سال ہے کہ ان کا منصوبہ مکمل نہیں ہوتا جس کی وہ دو ہفتوں میں تکمیل کی یقین دہانی کراتے آئے ہیں مگر دو سال سے زائدکا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی صارفین دو گنا تین گنا اور چار گنا بلوں کی ادائیگی کے ساتھ اضافی اخراجات پرمجبور ہیںکیا اس کاکوئی نوٹس لینے والا نہیں اور شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ محکمہ گیس کے حکام اس مسئلے پر ازخود توجہ دیں گے اور اپنے صارفین کو مہنگے داموں ہی سہی کم از کم ان کی ضرورت کے مطابق اور ضرورت کے اوقات میں گیس کی فراہمی یقینی بنانے کافریضہ مزید تاخیر کے بغیر ادا کرکے اپنی ذمہ داری پوری کریں گے ۔ علاوہ ازیں جن حکمرانوں کو یقین دہانی کرائی گئی تھی جن کی حکومت نہیں رہی وہ اپنی جگہ لیکن گورنر خیبر پختونخوا جو حکومتی معاملات میں دخل اندازی تک کے مرتکب ہونے سے نہیں کتراتے ان کو متعلقہ محکمے کی جانب سے جو یقین دہانی کرائی گئی تھی کیا وہ ان سے اس استفسار کی زحمت نہیں کریں گے کہ اس یقین دہانی پر ابھی تک عملدرآمد کیوں باقی ہے اور شہریوں کی مشکلات میں کمی کے لئے عملی اقدامات کی نوبت کب آئے گی۔

مزید پڑھیں:  سیاسی جماعتوں کے مطالبات ا ور مذاکرات