جس کی لاٹھی اس کی بھینس

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے تقریباً 5 ماہ بعد میئر کراچی کے انتخاب کا مرحلہ بھی جیسے تیسے مکمل توہوا لیکن اس سے جنم لینے والا تنازعہ سارے نظام کو عضو معطل بنانے کا سبب بننے کا خدشہ ہے۔ اس انتخاب میں سٹی کونسل میں سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے میئر کے امیدوار مرتضی وہاب تھے جبکہ سٹی کونسل میں دوسری بڑی جماعت، جماعت اسلامی کی جانب سے میئر کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن تھے۔نمبرز گیم کو دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی ارکان کی تعداد 173 جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مشترکہ اراکین 192 تھے۔تاہم ووٹنگ سے قبل ایک ڈرامائی صورتحال پیدا ہوئی اور پاکستان تحریک انصاف کے تقریبا 30 اراکین نے ایک فارورڈ گروپ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا الگ پارلیمانی لیڈر نامزد کیا اور ووٹنگ کے عمل میں غیر حاضر رہے۔نتیجے کے طور پر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اتحاد کی اکثریت ختم ہوگئی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار مرتضی وہاب غیر سرکاری نتائج کے مطابق 173 ووٹوں کے ساتھ کراچی کے میئر منتخب ہوگئے۔چونکہ انتخابات متنازعہ ہوگئے ہیں لہٰذا معاملہ اب بھی عدالت میں ہی جائے گا۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ جس طرح اس الیکشن کو ہونا چاہیے تھا یہ اس طرح سے ہوا نہیں۔پی پی پی کا یہ موقف ہے کہ انحراف کے حوالے سے قوانین کا مقامی حکومت پر اطلاق نہیں ہوتا۔ اگر جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے اراکین کو ملا کر یہ کہہ رہی ہے کہ ان کے پاس 193 ووٹ کی اکثریت ہے تو اس انتخاب کے بعد جو پریس کانفرنس ہوئی اس میں حافظ نعیم کے ساتھ پی ٹی آئی کے اراکین کیوں موجود نہیں تھے؟ اگر پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک واقعی فارورڈ بلاک ہے تو یہ جماعت اسلامی کے اکثریت رکھنے کے دعوے کی نفی ہوگا۔قطع نظر اس کے کہ کس کی جیت ہوئی ہے اور کس کی ہار ایک مرتبہ پھر سخت چپقلش کی صورتحال پیدا ہوگئی البتہ اگر ان انتخابات کو چیلج کرنے کے بعد فیصلہ پھر بھی پیپلزپارٹی کے حق میں آئے یاجماعت اسلامی اور ان کی ا تحادی جماعتیں فاتح ہوئیں تو ہار جیت کافیصلہ تو ہوجائے گا مگر محاذ آرائی کی کیفیت بدستور طاری رہے گی اور کراچی کے عوام کوبلدیاتی نظام واپس مل جانے کے باوجود کوئی فائدہ شاید ہی ہو۔اس سے بڑھ کر بد قسمتی کیا ہو گی کہ ملک میں انتخابات کا منصفانہ اور شفاف انعقاد کا عمل صرف شکوک و شبہات کا شکار نہیں بلکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے ہارنے والے کی شکست اور جیتنے والے کی کامیابی مشکوک ہوجائے تو پھر عوام کا خدا ہی حافظ۔

مزید پڑھیں:  ''دوحہ طرز مذاکرات'' سیاسی بحران کا حل؟