ارے دامن ہی جھاڑتے رہو گے کیا ؟

وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ہر بات نہیں مانی جاسکتی۔ ٹیکس چھوٹ نہیں دیں گے تو شرح نمو کیسے بڑھے گی۔ پاکستان مخالف بیرونی قوتیں چاہتی ہیں پاکستان سری لنکا بن جائے۔ وزیر خزانہ نے پی ٹی آئی حکومت میں اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے لئے کی گئی قانون سازی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم ریاست کے اندر ریاست کو ظاہر کرتی ہیں جو کہ ناقابل برداشت ہے۔ انہیں وضاحت کرنی چاہیے تھی پی ڈی ایم حکومت 14ماہ گزرجانے کے باوجود اس ایکٹ میں نئی ترامیم کیوں نہیں لاپائی جبکہ پچھلے دور میں جب سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم ہورہی تھیں تو قومی اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف نے اس کی مخالفت کی تھی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے معاملات پر عالمی سیاست ہورہی ہے۔ آئی ایم ایف بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم دیوالیہ ہوجائیں تاکہ وہ من پسند شرائط پر مذاکرات کرے۔ وزیر خزانہ کے مطابق 9ویں جائزہ کے مذاکرات ناکام نہیں نامکمل ہیں ہمیں بلیک میل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف معاہدہ کے مطابق آخری ادائیگیوں کے 2ارب ڈالر نہیں دے گا تو اس پر افسوس ہوگا البتہ ہم پرامید ہیں کہ ملک کو کچھ نہیں ہوگا تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود قرضوں کی اقساط ادا کررہے ہیں۔ دوسری طرف سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوتا تو دوست ممالک سے زیادہ ڈیپازٹ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ان کا کہنا تھا کہ معیشت میں مشکلات ہیں۔ اصلاحات اور درستگی کے راستے کو اپناتے ہوئے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ حفیظ پاشا کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر منفی 14ارب ڈالر ہیں یہ تشویشناک صورتحال ہے جبکہ پی ڈی ایم کے ہی ایک سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اسحاق ڈار کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو دی گئی بریفنگ پر لطیف پیرائے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بال سوئنگ ہورہی ہے ایسا ہے تو بیٹنگ کیوں کررہے ہو؟ مفتاح اسماعیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کرنا ہی وزیر خزانہ کا کام ہے ان کے مطابق کوئی بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے۔ دوست اور دشمن اس امر سے واقف ہیں کہ اگر ڈیفالٹ ہوا تو انہیں بھی نقصان پہنچے گا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو وزیر خزانہ کی دی گئی بریفنگ کو محض جذباتی باتیں کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ آئی ایم ایف سے 7ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کے لئے ہوئے ابتدائی معاہدے اور بعدازاں چوتھے اور پانچویں جائزہ پروگرام میں طے پانے والے امور سے انحراف کی ذمہ داری بہرطور تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوتی ہے بلاسوچے سمجھے طے شدہ شرائط سے انحراف اور لوگوں کو خوش کرنے کے لئے بجلی و پٹرولیم پر سابق دور میں دی گئی سبسڈی سے جو مسائل پیدا ہوئے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتے گئے۔ حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف کے بعض ذمہ داران اور خصوصا پاکستان میں کنٹری ہیڈ نے چند ایسے بیانات بھی دیئے جو مالیاتی ادارے کے کردار سے تجاوز کے زمرے میں آتے تھے البتہ یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کی بلیک میلنگ افغانستان سے امریکہ و نیٹو افواج کے انخلا کے بعد تبدیل ہوئی امریکی پالیسی کی بدولت ہے۔ سال 2021 میں آئی ایم ایف کے حکام نے جائزہ پروگرام میں شامل کی گئی سخت شرائط بارے پاکستانی وزیر خزانہ شوکت ترین کوبتایا کہ یہ شرائط امریکہ کے کہنے پر شامل کی گئی ہیں۔ پاکستانی وفد امریکی حکام سے اس پر بات کرلے ۔ افسوس یہ ہے کہ اس وقت نہ وزیر خزانہ نے امریکی حکام سے رجوع کیا نہ ہی یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ وزیر خارجہ کو امریکہ بھیج کر اس معاملے پر بات چیت کی جائے۔ امریکی ایما پر آئی ایم ایف کی سخت شرائط افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران پاکستان کے کردار کے حوالے سے تھیں امریکیوں کا موقف تھا کہ پاکستانی حکام نے ڈبل کراس کیا وہ اس حوالے سے چند شواہد بھی سامنے لائے۔ یہ کہنا بجا طور پر درست ہوگا کہ سابق پی ٹی آئی حکومت کی افغان پالیسی پچھلے چند برسوں سے پاکستانی معایشت کے گلے کا طوق بنی ہوئی ہے لیکن یہ امر بھی دوچند ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اس ضمن میں اصلاح احوال کے لئے کچھ نہیں کرپائی۔ یہ ضرور ہوا کہ پچھلے ایک برس اور دو ماہ کے دوران ہر مسئلہ کا ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابق حکومت کو قرارد ے کر دامن جھاڑنے کا مظاہرہ کیا گیا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا دامن جھاڑ کر آگے بڑھ لینے سے فرض ادا ہوگیا یہ اس امر کی ضرورت تھی کہ امریکہ کے تحفظ دور کئے جاتے اور امریکی حکام کے سامنے آئی ایم ایف کا موقف رکھ کر ان سے تعاون طلب کیا جاتا؟ ہماری دانست میں معاملات کو اس طور سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس طرح لیا جانا چاہیے تھا۔ ستم بالائے ستم وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کا رویہ ہے جو ان کے منصب سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وزیر خزانہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ماضی میں وہ جعلی اعدادوشمار کی بنا پر آئی ایم ایف سے پاکستان کو بھاری جرمانہ عائد کروانے کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ان کی بات چیت اور اعدادوشمار پر عدم اعتماد کی ایک وجہ ان کا ماضی بھی ہے۔ کہنے کی حد تک یہ جذباتی باتیں بہت دلکش ہیں جو انہوں نے گزشتہ روز کی بریفنگ میں کیں ان باتوں پر نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ موچی دروازہ کے جلسے اور قائمہ کمیٹی کی بریفنگ میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔ وزیر خزانہ کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ پچھلے برس اشرافیہ کی مراعات کے لئے رکھی گئی رقم سے تیس فیصد زائد رقم اس بار کے بجٹ میں کیوں رکھی گئی۔ اندریں حالات بہت ضروری ہے کہ وزیر خزانہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نہ صرف اس بارے معاملے کو ایوان کے سامنے رکھیں بلکہ حکومتی موقف پر بھی ایوان کو اعتماد میں لیں تاکہ پارلیمان کے ارکان مل جل کر ہی کوئی راستہ نکال پائیں کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ حالات ویسے نہیں جیسے وہ بتارہے ہیں ان کے ناقدین کہتے ہیں وہ تو ایک دن پھر وزیراعظم کے طیارے میں سوار ہوکر لندن چلے جائیں گے اور عذاب ملک اور عوام کا مقدر ٹھہریں گے۔ ناقدین کے اس موقف کو اگر سیاسی بڑ ہی سمجھ لیا جائے تو بھی یہ وزیر خزانہ کا ہی فرض ہے کہ وہ بتائیں کہ حکومت کے پاس متبادل پروگرام کیا ہے؟ ہم امید کرتے ہیں کہ عوام اور بالخصوص پارلیمان کو اعتماد میں لینے میں مزید تاخیر نہیں برتی جائے گی تاکہ مشکلات ختم نہیں ہوتیں تو کم از کم ان میں کمی تو ہو۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ طویل المدتی خودانحصاری پالیسی وضع کرے اور زراعت کے شعبہ کو ترقی دینے کے لئے دستیاب وسائل کا بڑا حصہ صرف کرے تاکہ معیشت کسی طور تو اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم