خوراک کا ضیاع

اگرچہ ملک میں مہنگائی کا رونا بہت رویا جاتا ہے اور صحیح رویا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کسی نہ کسی طرح ہر کسی کا پیٹ بھر ہی جاتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ خوراک کی دستیابی ہے مہنگے داموں بھی آٹا مل جائے اور کچھ پاس نہ ہو تو ماں روٹی ہی بنا کر کھلا دے تو شکر ادا کرنی چاہئے۔ غذائی بحران اور قحط کا تو تصور ہی خوفناک ہے زیادہ دور نہیں اگر ہم اپنے والدین کی بچپن کے دنوں میں خوراک اور خوردنی اشیاء کے حوالے سے ان سے پوچھیں تو کافی والدین کا جواب یہی ہو گا کہ ان کو بمشکل پیٹ بھر کے خوراک میسر تھی ایسے بھی والدین کی کہانیاں ہوں گی جو بچوں کو یہ کہہ کر حیران کر دیں کہ ان کونہ تو پیٹ بھر خوراک میسر تھی اور نہ ہی مناسب لباس کپڑے اور جوتے کہ موسم کی شدت سے بچا سکیں یہ بہتات اب ہوئی ہے پہلے ایسا نہ تھا۔کچھ اس زمانے کے لوگ بھی سادہ دل اور قناعت پسند تھے آج کل کے بچوں کی طرح کے بچے شاید ہی ہوں گے جو گھر آتے ہی کیا پکایا ہے کا جواب سن کر منہ بناتے ہیں اور مرضی کی چیز نہ ہو تو بھوکے رہتے ہیں حقیقت میں وہ بھوکے نہیں ہوتے بلکہ ان کا پیٹ بھرا ہوتا ہے ورنہ بھوک اتنی ظالم چیز ہوتی ہے کہ انسان سب کچھ کھانے پرمجبور ہوجاتا ہے دنیا میں موسمی تغیرات کے باعث خوراک کی قلت کے خدشات میں اضافہ اور قحط سالی کے خطرات بڑھ رہے ہیں مگر نہ تو ہماری حکومت اور نہ ہی ہمیں اس کی کوئی پرواہ ہے ہم ویسے بھی من حیث القوم شترمرغ کی طرح سرریت میں دبائے رکھنے کے عادی لوگ ہیں اپنی خرمستیاں ڈھونڈنے لگ جائیں تو درجنوں نکل آئیں کیا یہ کم خرمستی اور قدرت کی نعمتوں کی ناشکری ہے کہ ہم خوراک ضائع کرنے سے ذرا بھی نہیں کتراتے گھر ہو یا ہوٹل ریسٹورنٹ ہو یا شادی ہال جہاں بھی ہو خوراک کا بری طرح سے استعمال اور ضیاع عام مشاہدہ ہے قبل اس کے کہ اس حوالے سے دستاویزات کی روشنی میں ضیاع کی تصویر پیش کی جائے آپ کو یاد دہانی کرادوں کہ اسراف ہمارے دین میں منع ہے مگر جو چیز منع ہوتی ہے ہم بدقسمتی سے جان بوجھ کر وہ کر رہے ہوتے ہیں جو ممنوعات و مکروہات ہوں پانی ہو یا خوراک یا استعمال کی کوئی اور چیز اسراف وتبذیر کے بغیر گویاہمیںمزہ ہی نہیں آتا یہ ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے اس لئے اپنے ملک ہی میں نہیں باہر بھی جائیں تو اس عادت بد سے باز نہیں آتے ایک اطالوی ریسٹورنٹ میں چند پاکستانی دوست کھانا کھانے بیٹھے تو حسب عادت بے پناہ چیزوں کا آرڈر دیا اوسط درجے کے لوگ تو پھر بھی بل زیادہ آنے کے خوف سے ہاتھ روکے ہوتے ہیں مگر طبقہ اشرافیہ کو تو کھانے کا ڈھیر دیکھ کر ہی اطمینان ہوتا ہے کھایا تو کھایا نہیں تو بھر ی پلیٹ چھوڑ دی اسی عادت بد کا مظاہرہ انہوں نے وہاں بھی کیا تو ساتھ بٹھے ہوئے اطالوی شخص کو فکر ہوئی ا نہوں نے پاس جا کر مہذب انداز میں توجہ دلائی کہ یہ کھانا بہت زیادہ ہے آپ اسے کھا نہیں سکیں گے خواہ مخواہ ضائع ہو گا اگر کھانا ساتھ لیجانا بھی ہے تو میز پر اسے کھولنے کی کیا ضرورت تھی امیرزادوں نے جواب دیا کہ تمہیں کیا مسئلہ ہے بل ہم دیں گے کھالیا تو کھالیا نہیں تو بل تو ادا کر ہی دیں گے اطالوی شخص نے جواب دیا کہ تمہارے ملک میں ایسا ہوتا ہو گا ہم اپنے ملک میں نعمتوں کو ضائع نہیں اس کی قدر کرتے ہیں بہرحال جھگڑا بڑھ گیا اور پولیس آگئی ماجرا سنا اور لڑکوں کو لے گئی کیونکہ اٹلی میں آپ خوراک ضائع نہیںکرسکتے اور ایسا کرنا جرم ہے ۔ صرف اٹلی ہی نہیں دنیا کے مہذب ممالک میں اسراف اور بے جا نمود و نمائش کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اسے شان و شوکت سے تعبیر کررہے ہوتے ہیں اور ایسا کرکے ہم دوسروں سے خود کو برتر سمجھ رہے ہوتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کی وہ بیماری ہے جو دیمک کی طرح ہمیں اندر سے کھا رہا ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بیشتررویے اور سوچ منفی ہوتے ہیں حالانکہ وہ مثبت ہوتے تو خود ہمیں ہی فائدہ تھا مگر کیا کیجئے اس معاشرے میں نمودونمائش اسراف رشوت ستانی جیسے قبیح افعال باعث شرم نہیں باعث فخر سمجھے جاتے ہیں اس طرح کی بیمار سوچ ہی کے باعث ہم مشکلات کابھی شکار رہتے ہیں اور اقوام عالم میں بھی ہماری وقعت نہیں ہوتی ۔
کھانے کا ضیاع اور اسراف کتنا ہوتا ہے ہمارے ہاں اس کا ہمیں درست اندازہ نہیں یہ رپورٹ سبھی کے لئے چشم کشا ہونی چاہئے ۔وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی دستاویزات میں کیا گیا یہ انکشاف کہ شدید غذائی قلت سے دوچار ہونے کے باوجود پاکستان میں ہر سال چار ارب ڈالر کی خوراک ضائع ہوجاتی ہے، بلاشبہ پوری پاکستانی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس حوالے سے منظر عام پر آنے والی اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ملکی پیداوار کی تقریبا 26 فیصد یعنی ایک چوتھائی سے زیادہ خوراک ضائع ہوجاتی ہے جس کی مجموعی مقدار 19.6ملین ٹن سالانہ ہے ۔ یہ خوراک جن طریقوں سے ضائع ہوتی ہے ان میں شکل، سائز اور رنگ کے معیار پرپورا نہ اترنے والی تازہ خوراک، فیکٹریوں میں چھانٹی کے عمل کے دوران غیرمعیاری قرار پانے والی خوراک ، تاریخ استعمال گزر جانے والی خوراک کا ضائع کردیا جانا شامل ہے۔ تاہم ان اسباب کی بنا پرخوراک کا ضائع کردیا جانا بلاجواز قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن ایسی تمام ممکنہ تدابیر بہرحال اختیار کی جانی چاہئیں جن پر عمل کرکے غذائی اشیا کے معیار کو متاثر ہونے سے روکا جاسکتا ہے ۔ وزارت غذائی تحفظ کے مطابق خوراک کا سب سے زیادہ ضیاع ہمارے باورچی خانوں اور پکوان کے مراکز میں ہوتا ہے۔ضرورت سے زیادہ غذائی اشیا کی تیاری کے بعد بچی ہوئی خوراک کو ضائع کردیا جاتا ہے۔امیروںکی شادی اور ریسٹورنٹ میں کھانا جتنا زیادہ ہو اور وہ جتنا چاہیں خرچ کریں لیکن خوراک کو پھینک نہ دیا جائے پیک کرکے غریبوں میں بانٹ دی جائے اور اسراف کے عذاب کی بجائے ثواب کمایا جائے ہمارے ہوٹلوں میں جو کھانا گاہکوں سے اور کچن میں بچ جاتا ہے اسے کچرے کے ڈھیر پر نہ پھینکا جائے اس کھانے کے لئے ترسنے والوں کی ہمارے ملک میں کمی نہیں اٹھا کر کسی گائوں میں بھجوا دیجئے اور دیکھئے کہ اس کی وہاں کیا قدر ہے ۔قومی معیشت کی موجودہ بحرانی کیفیت میں چار ارب ڈالر کی خطیر رقم کی خوراک کو ضائع ہونے سے بچانا پوری قوم کی ذمہ داری ہے لیکن شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں لوگ کھانا جس بری طرح کھانے پر ٹوٹتے اور ضرورت سے کہیں زیادہ لے کربے دردی سے ضائع کرتے ہیں اسے کفران نعمت کہنا غلط نہ ہوگا۔ غذائی اشیا کی ناقدری ہماری دینی تعلیمات اور تہذیبی اقدار کے بھی سراسر منافی ہے لہذا آگاہی مہم کے ذریعے ان رویوں کو مثبت طور پر بدلنے کے لیے تمام ضروری اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں۔ ہوٹلوں میں جو خوراک بچتی ہے اسے لوگوں تک پہنچانے کے لئے سرکاری سطح پر انتظامات ہوں تو فبہا لیکن سرکار سے اس نیکی کی توقع نہیں کی جاسکتی او نہ ہی ہر کام سرکار ہی کے ذمے لگایا جائے چندرضا کار اکٹھے ہوں اور باری باری بچ جانے والی خوراک کسی یتیم خانے ‘ کسی گائوں ‘ کسی مدرسے میں پہنچانے کی ذمہ داری لی جائے تو خوراک بھی ضائع نہ ہو ثواب بھی ملے اور مخلوق خدا کا پیٹ بھی بھرے ۔ بس تھوڑی سی توجہ چاہئے اور بس۔

مزید پڑھیں:  ''دوحہ طرز مذاکرات'' سیاسی بحران کا حل؟