کاروباری اعتماد میں اضافہ پرتوجہ کی ضرورت

16اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی)کی جانب سے کیے گئے تازہ ترین سروے نے پاکستان کے بزنس کانفیڈنس انڈیکس (بی سی آئی)کے حوالے سے تشویشناک اعداد و شمار سامنے آئے ہیں جس میں شدید کمی نمایاں ہے جو فوری توجہ کا متقاضی معاملہ ہے۔امر واقع یہ ہے کہ سروے میں کاروبار کی ترقی کے لیے سرفہرست تین خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے بلند افراط زر، زیادہ ٹیکس اور قدر میں کمی یہ تمام اہم مسائل ہیں جن پر پالیسی سازوں کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ کاروبار پر ان عوامل کے منفی اثرات کی وجہ سے اعتماد میں کمی اور معیشت کی ترقی کی صلاحیت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ زرمبادلہ کی قلت، افراط زر، بلند شرح سود اور کرنسی کی تیزی سے قدر میں کمی جیسے عوامل سے کاروبار کو بری طرح متاثرہو رہا ہے ۔ اس عمل نے درآمدی کارروائیوں کو بھی شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ پالیسی سازوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان چیلنجوں کی سنگینی کو پہچانیں اور ان سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کریں۔ سب سے بڑھ کراور خاص طور پر کرنسی کو مستحکم کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ مزید برآں، غیر ملکی سرمایہ کاروں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے، شفافیت کے کلچر کو فروغ دینے اور کاروبار کرنے میں آسانی کو بڑھانے کی طرف کوششیں کی جانی چاہئیںجو ہمارے نظام میں موجود رکاوٹوں کو دور کئے بغیر ممکن نہیں یہ رکاوٹیں تاخیری حربے اور بدعنوانی جیسے عوامل جب تک موجود ہوں اس وقت تک ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان ٹارگٹڈ حل تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد میں تعاون بہت ضروری ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی عدم استحکام معاشی بدحالی میں بہت زیادہ اضافہ کرتا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاروں میں شکوک اور مزاحمت پیدا کرتا ہے۔پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں معیشت پر اعتماد بحال کرنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ او آئی سی سی آئی کے سروے میں اٹھائے گئے خدشات کو دور کرنے کے لیے فوری اور جامع اقدامات کرنے سے پاکستان میں ایک سازگار کاروباری ماحول پیدا ہو سکتا ہے اورسرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکتا ہے اور طویل مدتی و پائیدار اقتصادی ترقی کوحرکت دی جا سکتی ہے۔ فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ناکامی سے کاروباری اعتماد کے مزید ابتر کا خطرہ ہے، جو ملک کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ ہے۔اس بارے عملی اقدامات میں تاخیر باعث خسران ہوگی۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟