موروثی قیادت

حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) نے اپنے انٹرا پارٹی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) کے تمام عہدے شریف خاندان ہی کے پاس ہی رہ گئے ہیں صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے چار بڑے عہدے شریف خاندان کے پاس ہیں جن میں پارٹی قائد نواز شریف، پارٹی صدر شہباز شریف سینیئر نائب صدر مریم نواز اور سیکریٹری خزانہ اسحاق ڈار ہیںاور یہ سلسلہ ایک تسلسل سے چلا آرہا ہے دکھاوے اور الیکشن کمیشن کی شرط پوری کرنے کے لئے انٹرا پارٹی انتخابات کاانعقاد توکیا جاتا ہے مگر نتائج کا ہر کسی کو پہلے سے علم ہوتا ہے کہ مد مقابل کسی نے آنا نہیں جنہوں نے لب کھولنے کی کوشش کی ان کا حشر سب کے سامنے ہے ۔ بہرحال مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل نے حیرت انگیز طور پرایک مرتبہ پھر ان عہدیداروں کو منتخب کیا ہے اس سے قبل بھی یہ عہدے انہی ان کے پاس تھے۔صرف انتخابات ہی کے موقع پر نہیں علاوہ ازیں بھی ہر فیصلہ اندھے کی ریوڑھیاں بانٹنے کی مثل ہی ہوتی آئی ہے۔یہ پہلا موقع نہیں بلکہ2018 کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں شہباز شریف اور پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کے قائد حزب اختلاف بننے پر بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ کیونکہ اس وقت پنجاب اسمبلی میں پارٹی کے سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق بھی بطور ایم پی اے موجود تھے۔جنہیں زیادہ اندازہ کیا گیااسی طرح پارٹی کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کی اپنے عہدے پر موجودگی کے باوجود مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر بنانے پر بھی کافی چہ مگوئیاں کی گئی تھیں۔ اگرچہ شاید خاقان عباسی اور مریم نواز نے ان چہ مگوئیوں کو رد کیا تھا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ شاہد خاقان عباسی اس فیصلے کے بعد پارٹی سے دور ہوتے گئے۔جنرل کونسل کے اجلاس میں پارٹی کے نومنتخب صدر اور وزیراعظم شہباز شریف نے پارٹی فیصلوں بالخصوص اسحاق ڈار پر تنقید کرنے والوں یہ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہیں پارٹی میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔بظاہر شہباز شریف کا نشانہ مفتاح اسماعیل تھے لیکن ان دنوں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح یک قالب دو جان ہیں۔ اس لیے شہباز شریف کی تنقید شاہد خاقان عباسی اور مفتاح دونوں پر سمجھی جا رہی ہے۔سوشل میڈیا پر شہباز شریف، مریم نواز اور اسحاق ڈار کے بلامقابلہ منتخب ہونے پر ن لیگ کو فیملی روڈ پارٹی کہا جا رہا ہے لیکن یہ تنقید بھی نئی نہیں ہے۔ ماضی میں جاوید ہاشمی کو نظرانداز کیے جانے پر بھی شریف خاندان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔صرف مسلم لیگ نون ہی پر کیا موقوف پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں میں بھی تقریباً اسی طرح کی کیفیت ہے صرف جماعتی عہدوں پر اگر انتخاب کو پارٹی اراکین کی ”محبت وعقیدت” قرار دے کر صرف نظر بھی کیا جائے تو حکومتی عہدوں پربٹنے والے اندھے کی ریوڑھیوں کو کیا نام دیا جائے ۔ یہ صرف محولہ دو تین جماعتوں کی کہانی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کی حد تک ہی اگر سیاسی اقرباء پروری اور حکومتی عہدوں کی بندر بانٹ کا جائزہ لیا جائے تو اے این پی سے لے کر جے یو آئی تک اور تحریک انصاف میں حال ہی میں مستعفی ہونے والے صوبائی صدر کے خاندان اور سابق وزیراعلیٰ کے منظور نظر عناصر اور رشتہ داروں کو نوازنے کا عمل غرض کوئی بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا ان جماعتوں میں جب بھی پارٹی انتخابات ہوتے ہیں یا ہوں گے کم و بیش ایک جیسے نتائج اور فیصلے ہی سامنے آئیں گے اس وقت حکمران جماعتوں میں حکومتی عہدوں کی بندر بانٹ بھی کسی سے پوشیدہ امر نہیں افسوس اس بات کا ہے کہ خواہ مخواہ دین کے نام پر ہی سیاست کرنے والی جماعت ہی کیوں نہ ہوجماعتی عہدے اور حکومتی عہدوں پر کسی اور کو موقع دینے کے روادارنہیں اپنے اعزہ احباب او رقریبی ساتھیوں و کاروباری شراکت داروں کے بعد بچ جانے والے عہدے ہی پارٹی رہنمائوں کا حق متصور ہوتے ہیں اس بدعت سے تحریک انصاف کے قائد پوری طرح نہیں تو کسی حد تک محفوظ ضرور ہیں شاید اس کی وجہ اس سہولت کی عدم دستیابی و عدم دلچسپی ہو بہرحال وجہ جو بھی ہو تحریک انصاف کے قائد کے علاوہ دیگر عہدیداروں کاگنگا میں اشنان کوئی پوشیدہ امر نہیں جس پر اب کنٹرول کا سنہری موقع ہے آگے چل کر اس غلطی کا اعادہ نہ کیا جائے تو جماعت اسلامی کے بعد تحریک انصاف دوسری ایسی جماعت بن سکتی ہے جس میں عہدوں کی بندر بانٹ نہیں ہوتی بلکہ جمہوری طریقے سے ان کا انتخاب ہوتا ہے ۔ پارٹی قائد کی حد تک نوازشریف ‘ عمران خان ‘ مولانا فضل الرحمان اور کسی حد تک بلاول بھٹو زرداری کا ہونا معنی رکھتا ہے لیکن باقی جماعتی عہدوں اور حکومتی عہدوں کی بندر بانٹ اور موروثیت کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں جن جن سیاسی جماعتوں میں خود جمہوریت نہیں ان سے ملک میں جمہوریت کے فروغ کی توقع عبث ہے۔

مزید پڑھیں:  جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی