لیول پلیئنگ فیلڈ اور فیصلہ ساز

گزشتہ چند مہینوں سے ہمارے ملک میں سیاسی جلسوں اور ٹاک شوز میں ایک سیاسی جماعت کے اکابرین انتخابات کے حوالے سے ایک اصطلاح استعمال کر رہے ہیں جسے لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک میں اس کے شہریوں کو ہموار میدان بغیر تمیز رنگ و نسل زبان فراہم کیا جائے تاکہ منزل پر پہچنے کی دوڑ میں ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق دوڑ میں بلاکسی روک ٹوک شامل ہوسکے۔ مزید آسان بنانے کیلئے اس کے معنی یہ بھی کئے جا سکتے ہیں کسی بھی ملک میں مقتدر و طاقتور حلقے، ریاست کے افراد یعنی عوام سے رنگ نسل، مذہب وغیرہ اور سماجی حقیقت میں امتیاز سے ہٹ کر برابری کا سلوک کرے تو اس کو لیول پلیئنگ فیلڈ کہا جاتا ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں ریاست اور اس کے مقتدروں نے اپنے عوام اور شہریوں کو معاشرتی، معاشی اور سیاسی سطح پر ہموار و سطح زمین (لیول پلیئنگ فیلڈ) فراہم کی انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی منازل طے کرلیں، وطن عزیز پاکستان اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں سب کو بغیر کسی تمیز کے لیول پلیئنگ فیلڈ کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی، بابائے قوم نے اپنی تقاریر میں اس حوالے سے بڑے بنیادی نکات بیان کئے تھے۔ ”آپ سب آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کیلئے، آپ سب آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کیلئے اور کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کیلئے آپ آزا د ہیں” قائداعظم کی اس تقریرمیں صاف طور پر لیول پلیئنگ فیلڈ کی طرف اشارہ موجود ہے۔ گویا ریاست پاکستان کے نزدیک تمام فرقوں اور مذاہب کے لوگ برابر ہیں لیکن ہماری بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ قائداعظم کی وفات کے فوراً بعد معاشی، معاشرتی اور سیاسی میدان میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے برعکس معاملات نمٹانے شروع ہوئے ملکی سطح پر اس کی ابتداء مغربی پاکستان کی طرف سے مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ سلوک سے ہوئی، مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ون یونٹ بناکر مشرقی پاکستان جو آبادی کے لحا ظ سے بڑا صوبہ تھا کے برابر کر کے اس کا سیاسی، معاشی استحصال شروع ہوا، بنگالیوں نے لیول پلیئنگ فیلڈ کیلئے بہت مطالبے اور منتیں سماجتیں کیں لیکن ہم ماننے والے کہاں تھے، یہاں تک کہ 1971ء کا سانحہ رونما ہوا جس پر ہم آج تک ہر سال دسمبر میں آنسو تو بہاتے ہیں لیکن سبق سیکھنے کیلئے کبھی تیار نہ ہوئے کیونکہ بچے کچھے پاکستان میں ہم نے وہی کھیل بلوچستان جو اس دفعہ آبادی کے بجائے رقبے کے لحاظ سے تقریباً آدھے پاکستان کے برابر ہے لیکن آج تک تعلیم، صحت اور وسائل کی فراہمی کے لحاظ سے قیمتی معدنیات سے بھرے صوبہ کو معاشرتی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے قرون وسطیٰ کی قبائلی زندگی کے مناظر پیش کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ اسی طرح پورے پاکستان میں آج بھی اقلیتوں سے خواتین تک کہیں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کا دور دور تک نشان نہیں لیکن مجال ہے کہ ہمارے کانوں پر کبھی جوں تک رینگی ہو، وطن عزیز میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی عدم فراہمی کی داستان بہت دلچسپ اور طویل ہیں اور کالم کی تنگ دامنی کے پیش نظر ان کا سب ذکر ممکن نہیں اس لئے آج صرف سیاسی میدان کی لیول پلیئنگ فیلڈ پر بات کی جائے گی۔
ہمارے ہاں جب سیاسی معاملات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس میں عموماً اشارہ ہمارے ملک کے طاقتور حلقوں کی طرف ہوتا ہے اور وہ حلقے عموماً اس کے جواب میں اپنی پریس کانفرنسوں کے ذریعے اعلان کرتے ہیں کہ ہم غیر سیاسی ہیں، ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے لئے تمام سیاسی جماعتیں برابر ہیں، عوام جن کو منتخب کریں وہ ہمیں بھی منظور ہے لیکن ایک جماعت کا لیول پلیئنگ فیلڈ کی فراہمی کا مطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن اور اس کے اکابرین بالخصوص نوازشریف کے ساتھ ہوا تھا وہ اس وقت عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ کیا جائے اور پھر انتخابات کروا کر نواز شریف کو چوتھی دفعہ وزیراعظم کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے لگتا تو یہی ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کی فراہمی کیلئے وہی کچھ ہو رہا ہے جس کا مطالبہ اور تقاضا کیا جا رہا ہے، اس سکرپٹ کے مطابق عمران خان کیلئے پہلا راستہ یہ ہے کہ وہ چند برسوں کیلئے سیاست بھول جائیں اور یوکے وغیرہ میں کرکٹ پر کمنٹریاں کر کے وقت گزاریں اور اس وقت کا انتظار کریں کہ اس کی ضرورت دوبارہ محسوس ہو اگرچہ جس انداز میں پی ٹی آئی کے بخیے ادھیڑنے کی کوششیں جاری ہیں اس میں دور تک اس کے دوبارہ منظر سیاست پر طلوع کے امکانات کم سے کم دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ نواز شریف کے چوتھی دفعہ وزارت عظمیٰ کے بعد نوجوان وزرائے اعظم کا باری باری آنا بھی اسکرپٹ میں موجود ہے۔ عمران خان کیلئے دوسرا ممکنہ راستہ یہ ہے کہ یا تو زمان پارک میں نظربندی کی زندگی گزاریں یا پھر جیل میں سیلف کنورسیشن کیلئے تیار رہیں، تیسرا یہ بھی ان کے بارے میں شنید ہے کہ ایک سو پچاس مقدمات میں سے چند ایک ایسے بھی نکل آئے جن کی رو سے وہ نااہل ٹھہرے، اگرچہ پانچ برس کیلئے کیوں نہ ہو یہ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات ہوئی لیکن اس میں بڑی رکاوٹ کپتان کی یہ ضد اور انا ہے کہ مجھے جیل جانا قبول ہے اور یہ اس لئے کہ ان کو شاید یقین ہے کہ جب انتخابات کا بگل بجے گا خان کے شیدائی و فدائی پولنگ سٹیشنوں پر پہنچ جائیں گے، اگرچہ یہ لیول پلیئنگ فیلڈ کے ”اصولوں کے خلاف ہے” کپتان کے نزدیک لیول پلیئنگ فیلڈ یہ ہے کہ وہ بار بار غیر سیاسی حلقوں کو مذاکرات کی آفر کر رہے ہیں اور آئندہ کے انتخابات کیلئے اصولوں کے تعین پر ان کی موجودگی میں سیاسی جماعتوں سے برابری کی سطح پر بات چیت کرکے وطن عزیز کو سیاسی و معاشی دلدل سے نکالنے کیلئے کوئی واضح لائحہ عمل دینے کے خواہاں ہیں لیکن شاید اس کو کپتان کی کمزوری سمجھا جارہا ہے اوریہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بہت حقارت اور تکبر کے ساتھ خان کی اس آفر کو ٹھکرا رہے ہیں حالانکہ وہ مذاکرات کی آفر غیر سیاسی حلقوں کو کر رہے ہیں۔ لہٰذا آج ان حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ عمران خان کی کردار کشی کی مہم کو لگام دی جائے، اس کی پارٹی کی توڑپھوڑ اور کارکنوں کی گرفتاری کو روکا جائے اور صحیح معنوں میں ماضی کو ایک طرف رکھ کر وطن عزیز کی خاطر تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کر کے غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کروا کر ملک چلانے کا اختیار منتخب لوگوں کے حوالہ کرکے عوام کو معیشت کی اذیتوں سے نکالنے کے مواقع فراہم کئے جائیں، اس مشن کی تکمیل کیلئے سارے بڑوں کو اپنی انائوں کے خول اور مفادات خواہ سیاسی ہوں یا معاشی سے نکل کر صرف اور صرف ملک کیلئے سوچنا ہوگا، اس کیلئے عدلیہ، انتظامیہ اور سیاستدانوں کو مل کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات کرنا ہوگی کہ آپ ملک کے دفاع کا اہم اور بھاری فریضہ ادا کریں اور اگر کوئی سیاسی جماعت آپ کی آشیرباد کے ساتھ دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے اور ملک کو ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کی طرح لیول پلیئنگ فیلڈ کے ذریعے ترقی کی راہ پر ڈالا جائے، اسٹیبلشمنٹ پر ناجائز و ناروا الزامات لگانے کے راستے بند ہونے چاہئیں اور یہ تب ہوگا جب اسٹیبلشمنٹ سیاسی ریموٹ کنٹرول ان کے حوالے کردیں جو اس کے عوام کی تائید و حمایت کے ذریعے مستحق ٹھہریں ورنہ 1971ء سے 1977ء اور 1999ء سے 2018ء کے حالاات و واقعات سب کے سامنے ہیں۔

مزید پڑھیں:  اسے نہ کاٹئے تعمیر قصر کی خاطر