چاہ کن راچاہ درپیش

قاضی حسین احمد مرحوم نے بہت پہلے پیشگوئی کی تھی کہ امریکہ اپنے انجام کو جلد پہنچ جائے گا تب لوگ قاضی صاحب کے اس دعوے کو ”دیوانے کی بڑ” قرار دے کر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے تاہم ان کی دوربین نگہی انہیں مستقبل میں دور تک جھانکنے کی صلاحیت کے مدنظر ایسے دعوے کرنے میں مدد دیتی تھی، دراصل مدبر سیاسی رہنماء آنے والے ادوار کا بہت پہلے اندازہ کرلیتے ہیں اب جو صورتحال عالمی سطح پر تبدیلیوں کے حوالے سے ہمارے سامنے ہے اس کو اگر غور سے دیکھا جائے تو مدت پہلے قاضی صاحب نے حالات کا درست ادراک کرتے ہوئے جو پیشگوئی کی تھی بالآخر حالات اسی جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں، دراصل قاضی صاحب علامہ اقبال سے نہ صرف بہت متاثر تھے بلکہ علامہ صاحب کے خوشہ چین ہوتے ہوئے ان کا بیشتر کلام قاضی صاحب کو ازبر تھا اور علامہ صاحب نے مغربی تہذیب کے حوالے سے غلط تو نہیں کہا تھا کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
مغربی تہذیب کا سرخیل اس وقت امریکہ ہے اور امریکہ ایک طویل عرصے سے جس طرح پوری دنیا کی اقتصادیات (اکانومی) کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے اور اس مقصد کیلئے آئی ایم ایف کے ذریعے خصوصاً ترقی پذیر اور غریب اقوام پر اس نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے ذریعے چھوٹی اقوام پر اپنی پالیسیاں مسلط کرکے اور انہیں آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر اداروں کے اقتصادی شکنجوں میں کس کر ان کو جینے اور مرنے کی درمیانی کیفیت میں مبتلا کرکے سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور کر رہا ہے، دنیا بھر میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے یا تو جنگ کا بازار گرم کرکے ان پر اسلحہ، گولہ بارود فروخت کرکے ترقی یافتہ مغربی اقوام کے کارخانے برقرار رکھنے کی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ جو ملک امریکی مفادات سے سرمو انحراف کرے وہاں سازشوں کے تحت ایسے حالات پیدا کر دیئے جاتے ہیں کہ معاملہ خانہ جنگی کی طرف چلا جاتا ہے، یہاں عراق، شام، لیبیا اور دیگر عرب ممالک کا تذکرہ ایک طرف رکھتے ہوئے ہم اگر” اپنے گھر آنگن” میں جھانکیں تو ہم پر یہ تلخ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کو صرف اس لئے ”سزا” دی جا رہی ہے کہ ہمارے عاقبت نااندیش رہنمائوں نے قیام پاکستان کے بعد حالات کا درست ادرا ک نہ کرتے ہوئے امریکی کیمپ میں پناہ ڈھونڈنے کی کوششں میں جو غلط فیصلے کئے ان کی وجہ سے اگرچہ وقتی طور پر ہمیں تھوڑا بہت فائدہ ضرور ہوا مگر امریکی پالیسی کسی بھی ”دوست؟” ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی اجازت دینا یا حوصلہ افرائی کرنا نہیں تھا بلکہ اسے ہمیشہ دست نگر بناکر ”مجبور محض” بنانا ہوتا ہے، سو ہمیں پی ایل 480 معاہدے کے تحت مفت گندم اور دیگر اشیائے خوردنی کی فراہمی ضرور تھی حالانکہ ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے اور اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے پاکستان چار موسموں کا خوگر ہونے کی بناء پر ایسی زرعی پالیسیاں اپنانی چاہئے تھیں جن سے ہم خوراک میں نہ صرف خودکفیل ہوسکتے تھے بلکہ دنیا بھر میں اپنی زرعی اجناس کو برآمد کرکے ملک میں خوشحالی لاسکتے تھے لیکن ابتداء ہی سے ہم امریکی خوراک کے ساتھ اس کے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والے ناکارہ شرمن بینک، مرمب شدہ مگ طیاروں اور ازکار رفتہ گول بارود کو ہی نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے اس کے چنگل میں پھنستے چلے گئے، امریکہ بھارت اور روس دوستی کو اپنے لئے تب خطرہ سمجھتا تھا اور ہمیں ایک سازش کے تحت اپنے ”کولڈ وار” کا حصہ بناکر ہم سے بڈھ بیر جیسے اڈوں کیلئے مراعات حاصل کرکے روسی رہنمائوں کے غیض و غضب کا نشانہ بنواتے ہوئے بڈھ بیر کے ہوائی اڈے سے اڑنے والے جاسوس طیارے ”یوٹو” کو روسی سرحدوں کی جاسوسی کرتے ہوئے نشانہ بنانے کے بعد دنیا کے نقشے پر پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگوانے میں کامیاب ہوگیا بعد میں افغان جہاد کے نام پر امریکہ نے روس کے ساتھ اپنی پراکسی وار میں پاکستان کو جس طرح استعمال کیا اور افغانستان کا استحصال کرتے ہوئے اس کا ”تورہ بورہ” کیا وہ کوئی زیادہ پرانی بات بھی نہیں بلکہ آج کی نواجوان نسل اس کے بارے میں پوری تفصیل سے اچھی طرح واقف ہے مگر قدیم زمانے میں لڑی جانے والی تلواروں، نیزوں، تیر کمان اور منجنیق سے لڑی جانے والی جنگیں ہر زمانے میں جدید ہتھیاروں سے ہوتے ہوئے اب جدید ترین ٹیکنالوجی سے لڑی جارہی ہیں جن پر بے پناہ سرمایہ خرچ ہوتا ہے، امریکہ نے بھی جس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں یا تو دوسرے ممالک کو آپس میں الجھا رکھا ہے اور پراکسی وار لڑ رہا ہے یا خود ایسی جگہوں میں ملوث رہا ہے ظاہر ہے اس پر بے پناہ سرمایہ لگتا ہے جبکہ اس نے یورپی ممالک اور بعض (بدقسمتی سے مسلمان ممالک) کو اپنا ہمنوا بنواکر اپنے ”دشمن” ممالک کیخلاف اقتصادی پابندیاں لگوانے کیلئے اقوام متحدہ کو استعمال کیا ہے، ان اقتصادی اور تجارتی پابندیوں نے دنیا کو ایک ایسی اقتصادی آگ میں جھلسانا شروع کر رکھا ہے کہ جس کے شعلے اب خود امریکہ کو بھسم کئے دے رہے ہیں اس حوالے سے ہمارا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ
درغنیم جلانے کو جو لگائی تھی
وہ آگ پھیل گئی میرے آشیانے تک
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ کے اپنے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے اگر امریکی ایوان نمائندگان میں امریکی اقتصادیات کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ کرکے اس کی معیشت کو لاحق خطرات کو روکا نہ جاتا تو امریکہ ڈیفالٹ کرچکا ہوتا جبکہ دوسری جانب امریکہ کے انگیخت پر مختلف ممالک کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے اقتصادی اور تجارتی پابندیاں محولہ اور دیگر چھوٹے ترقی پذیر بلکہ غریب ممالک کیلئے سوہان روح نہ بن چکی ہوتیں تو ان کے رہنمائوں کے ذہنوں میں امریکی ڈالر کی بجائے باہمی تجارت یا تو بارٹر سسٹم کے تحت یا پھر متعلقہ ممالک کے درمیان مقامی کرنسی میں کرنے کی سوچ نہ ابھرتی اور یہ ایک بہت خطرناک رجحان ہے جس سے امریکی ڈالر کو سخت آزمائش سے گزرنے کے چیلنجز لاحق ہوگئے ہیں، ہمیں یاد ہے کہ جب رونالڈ ریگن امریکی صدارت پر براجمان تھے تو اس وقت جاپان نے اپنی کرنسی ”جاپانی ین” کو ڈالر سے علیحدہ کرکے کھلی مارکیٹ میں فلوٹ کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی قدر کا خود ہی تعین کرے جس سے امریکی ڈالر کے بری متاثر ہونے کے خدشات پیدا ہوئے تو صدر ریگن نے جاپانی حکومت کے منت ترلے کرکے اس کے اعلان کو رکوایا تھا اب جبکہ کئی ممالک افریقی ممالک نے بھی باہمی تجارت امریکی ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی یا پھر چین کی کرنسی میں کرنے کا فیصلہ کرکے امریکی ڈالر کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے تو وہ دن دور نہیںجب امریکی اقتصادیات کو شدید دبائو کا شکار ہونا پڑے گا اور قاضی حسین احمد کی پیشگوئی درست ثابت ہوجائے گی۔ صحیح کہا ہے کسی سیانے نے کہ
چاہ کن راچاہ درپیش

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟