چون کفر از کعبہ برخیزد

لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی کو یونان کے ساحلوں کے قریب حادثہ پیش آنے سے 298 پاکستانیوں کی المناک موت نے ملک کے طول و عرض میں عموماً اور جن علاقوں کے افراد حادثے کا شکار ہوئے وہاں بالخصوص پیدا ہونے والی ماتم کی سی کیفیت ایک فطری امر ہے اور جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں پر کیا بیت رہی ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے مرکزی ملزم کو کراچی سے گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ خوش قسمتی سے بچ جانے والوں نے جن ایجنٹوں کی نشاندہی کی ہے ان میں ایک کا تعلق نوشہرہ ورکاں سے ہے اور اس کا ایک پارٹنر ایف آئی اے کا اہلکار بتایا جاتا ہے، یونانی حکومت نے چار روز تک جاری ریسکیو آپریشن ختم کرتے ہوئے آخری دو دنوں کے دوران کسی کو ریسکیو نہیں کیا، میرپور سے 9 ایجنٹ گرفتار کرلئے گئے ہیں، مرکزی ملزم نے آذربائیجان فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا ہے، اب گرفتار ہونے والے مختلف ایجنٹوں کی مدد سے دیگر ایجنٹوں کو بھی گرفتار کرلیا جائے گا، اتنی بڑی تعداد میں روزگار کی تلاش کیلئے مختلف علاقوں سے جانے والوں کی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں کی گرفتاری کے بعد انسانی سمگلنگ کے مافیا پر سنجیدہ سوال اٹھ رہے ہیں اور خاص طور پر جس طرح ایف آئی اے کے ایک اہلکار کی تلویث کا ذکر سامنے آیا ہے اس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے پر بھی سوال اٹھ گیا ہے ابھی تو اس سانحہ کی تفتیش کا آغاز ہی ہوا ہے اور ممکن ہے کہ تفتیش جس طور آگے بڑھتی جائے گی اس میں مزید سرکاری اہلکار بھی زد میں آسکتے ہیں کیونکہ یہ کام بغیر کسی کی آشیرباد سے اتنے بڑے پیمانے پر اتنی آسانی سے نہیں کیا جاسکتا، ویسے بھی یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث مافیاز اور گروہوں کو بے نقاب نہیں کیا گیا اور پاکستانی اداروں کے اندر موجود ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس مکروہ دھندے میں ملوث انسان دشمن افراد کے گرد قانون کا شکنجہ تنگ کرنے میں موثر کردار ادا کرتے ہیں، اس حوالے سے تازہ ترین خبر کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے انسانی سمگلنگ پر سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے انسانی سمگلنگ کی روک تھام پر ایک پاکستانی سمیت 8 افراد کو ایوارڈ سے نوازا ہے نمایاں کردار ادا کرنے پر پاکستانی پولیس سروس میں ڈی آئی جی کے عہدے پر فائز ظہیر احمد جو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)کے اینٹی ہیومن سمگلنگ یونٹ کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں اور جنہوں نے انسانی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے انتھک کام کیا ایوارڈ سے نوازا گیا، امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی جی ظہیراحمد کی کاوشوں سے اینٹی ٹریفکنگ، اینٹی سمگلنگ قواین بنے جبکہ ان کی کاوشوں سے متعدد گرفتاریاں اور سزائیں بھی ہوئیں، ایک طرف قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کے ایک اہم افسر کے انسانی سمگلنگ روکنے کے حوالے سے اہم کردار کو سراہتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے دنیا کے دیگر 8 ممالک کے افسروں کے ساتھ ایک صف میں کھڑا کر کے اپنے بڑے اعزاز سے نوازنے سے جہاں پاکستان کی عالمی سطح پر پذیرائی باعث فخر ہے تو دوسری جانب ایف آئی اے ہی کے ایک اہلکار کی اس تازہ ترین سانحہ اور انسانی سمگلنگ میں تلویث ملکی سطح پر باعث تشویش قرار دیا جائے گا اور اس پر یہی تبصرہ کیاجاسکتا ہے کہ چوں کفراز کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی، اس میں قطعاً شک نہیں ہے کہ جب تک متعلقہ اداروں کے اندر سے اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کی پشت پناہی نہ ہو یہ دھندہ کسی بھی طور پنپ نہیں سکتا جیساکہ اوپر کی سطور میں گزارش کی گئی ہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ ہے نہ ہی پہلا سانحہ بلکہ یہ کام عرصے سے جاری ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں ایسے گمراہ کن افراد موجود ہیں جو ضرورتمندوں کو بیرون ملک ملازمتوںکا جھانسا دے کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں پریشان لوگ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر سنہرے مستقبل کی تلاش میں اپنے اثاثے فروخت کرکے یا قرضے اٹھاکر ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ان میں بہت ہی خوش قسمت ہوتے ہیں جوکسی نہ کسی طرح منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں جبکہ اکثر یا تو ایجنٹوں کے بیرون ملک سہولت کاروں کے ظلم و ستم کا شکار ہوکر کنٹینروں کے ذریعے مختلف ملکوں کی سرحدیں پار کرتے ہوئے دم گھٹ جانے کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور دیگر بیرون ممالک غیر قانونی طور پر سرحدیں پار کرتے ہوئے وہاں کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی فائرنگ کا شکار ہوجاتے ہیں، اکثر سمندری راستوں کے ذریعے جاتے ہوئے بحری قزاقوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں یا پھر دیگر ممالک پہنچنے کے بعد وہاں انسانی سمگلنگ مافیا کی قید میں سخت مشکلات کا شکار ہوکر اپنے گھر والوں کو ان سمگلروں کی ڈیمانڈ کے مطابق مزید رقوم ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں تاکہ انہیں آزادی نصیب ہو، کوئی بھی صورت ہو یہ ایک انتہائی قابل نفریں دھندہ ہے اور اس میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دینے کیلئے ملکی قوانین میں موثر تبدیلیاں لانے پر بھی توجہ دینا لازمی ہے تاہم جو لوگ ان تمام حالات سے باخبر ہوتے ہوئے بھی انسانی سمگلنگ کے ان مکروہ کرداروں کے ہاتھ میں کھلونا بن جاتے ہیں انہیں بھی عقل کے ناخن لینا چاہئیں تاکہ نہ ان کو اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھونے پر مجبور ہونا پڑے نہ اپنے پیاروں کی زندگیاں دائو پر لگانے کے زخم سہنا پڑیں، جو لوگ پکڑے جاچکے ہیں ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی بھی لازمی ہے اور ان کی سزائوں کی میڈیا پر بڑے پیمانے پر تشہیر کرکے عام لوگوں کو ان کے چنگل سے محفوظ رکھنے کی سعی بھی ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟