عورت پن کا ہر نقش فریادی ہے

آئے روز اخبارات میں عورت پر گھر میں یا گھر سے باہر مختلف نوعیت کے تشدد کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں ، ہر واقعہ کے پیچھے اس کی وجوہات اور کرداروں کو بھی نمایاں کیا جاتا ہے ۔ایسی خبر پڑھ کے دکھ ہی ہوتا ہے مگر ساتھ ہی یہ تشویش بڑی بے چین کیے دیتی ہے کہ کیا اس معاشرے میں اب بھی عورت کو کم تر سمجھا جاتا ہے یا سرے سے اس کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ۔ کیا گھر میں رہتے ہوئے خانگی معاملات کی فیصلہ سازی میں شامل نہیں یا جدید تعلیمی سہولتوں کی دستیابی اور اہلیت کے باوجود بھی اس کی عقل و دانش کی نفی کی جا رہی ہے ۔مَیں ایسا نہیں سمجھتا کہ اب یہاں نسائی شعور کی بیداری میں اسلامی فکر ، تعلیم ،روشن خیالی اورسازگار ماحول میں اعلیٰ ملازمتی امور نے مثبت پیش رفت کی ہے ۔ چند دن قبل اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کر ڈالا جو پورے گھرکی کفالت کرنے کے لیے ایک سکول میں مدرس تھی ۔ دوسری خبر یہ تھی کہ شادی سے انکار کرنے پر باپ نے بیٹی کو مار ڈالا۔ جب یہ خبریں پڑھیں تو سوچنے لگا کہ مَیں نے غلط اندازہ لگایا اور ابھی کچھ نہیں بدلا۔
اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے، مسلمان مرد نے باپ بھائی اور شوہر ہونے کی حیثیت میں وہ حقوق غضب کر لیے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پناہ ، تحفظ ، روزی اور عزت کے لیے گھر میں بیٹھی ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی اس کے رحم و کرم پر ہے ۔ قران مجید میں مرد اور عورت کی برابری واضح طور پر بیان ہوئی ہے ، کہیں بھی مرد کو برتر اور عورت کو کم تر نہیں مانا گیا البتہ مرد کو قوام ضرور کہا گیا ہے جس کا اپنا مفہوم ہے مگر ان تمام بصیرت آمیز ارشادات کے باوجود ہمارے معاشرہ میں عورت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ عورت آج بھی دنیا کے قدیم ترین اور وسیع ترین موضوعات میں سے ایک ہے ۔مرد نے ہمیشہ اسے اپنے ساختہ معیار ات ، علوم ، نظریات اور تعصبات کی روشنی میں دیکھا ہے ۔ وہ یہ پسند کرتا ہے کہ عورت انہی اصولوں کے مطابق اپنے آپ کو بدلتی رہے ۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ عمل صدیوں سے جاری ہے اور اب بھی اس عمل کی جھلکیاں ہمارے سامنے ہیں ۔
میرے ایک اُستاد کہا کرتے تھے کہ عورت کو ” نیک پروین ” بننے کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ، اسی لیے وہ باپ ، شوہر ، بھائی ، بیٹے ، سماج ، رسم و رواج ، ناموس اور اقتصادی جبر جیسے خوف کے پتھروں کی دیوار میں چنی ہوئی ہوتی ہے ۔ وہ ایک لکھاری سیمون ڈیوار کا قول بھی سنایا کرتے کہ عورت اس طرح جنم نہیں لیتی جیسی کہ وہ بنا دی جاتی ہے ۔ ایک دن اُنہوں نے بڑی کرب ناکی میں بتایا کہ اُس کے بچپن کی یاد صرف اپنی ماں کی چیخیں ہیں جب میرا باپ گھر میں ڈنڈا لے کر ماں کو مارا کرتا ۔ ایک عرصہ بعد اس کی موت نے جدائی کا غم تو دیا مگر اس ظلم سے چھٹکارے کی خوشی بھی ہوئی ۔ یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ عورت پیدائش کے بعد بھی محکوم ہے اور اس کے ارد گرد کی فضا آلودہ رہتی ہے جس میں جیتے جی وہ سانس لیتی ہے ۔الغرض مہد سے لحد تک وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مرد کے ساختہ سانچوں میں خود کو ڈھالنے اور اس کی خوشنودی میں مصروف رہتی ہے ۔ ستم تو یہ ہے کہ علامہ صاحب کی خودی بھی ایک مردانہ صفت ہے جبکہ عورت کے شعلے سے صرف افلاطون کا شرار ٹوٹاہے ۔
عورت کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ مرد کے انہی پسندیدہ سانچوں میں اپنے جذبات و احساسات کو ڈھال لینے میں نسوانیت کی تکمیل اور عورت پن کی معراج ہے ۔جبکہ اس حوالہ سے اسلام نے عورت کو عزت ، حرمت اور وقار سے نوازا ہے ، اسے حقوق دئیے اور نظام ِ زیست میں کردار متعین کیا ہے ۔ اس حوالے سے ہمارے جید علماء کرام اور فقہا کا یہ دینی منصب اور علمی ذمہ داری ہے کہ خواتین کے استحصال، حدود آرڈیننس اوردیگر عائلی قوانین کی باقاعدہ جانچ پڑتال اور اجتہاد کریں تاکہ عورت کسی تضاد کا شکار نہ رہے اور ان کے متعین کردہ حقوق کسی طور پہ غصب نہ ہوں ۔
جس طرح عورت کی آزادی کو غلامی میں تبدیل کرنے اور اس کی محکومی میں نو آبادیاتی سرمایہ دارانہ نظام نے منفی کردار ادا کیا ، اسی طرح ہمارے معاشرہ میں عورت کی عزت کو جب ایک علامت قرار دیا گیا تو اسے دشمنی ، بدلہ اور وراثت کی آڑ میں نشانہ بنایا گیا مگر نتیجہ میں عورت ہی جیتے جی مرتی رہی اور اب بھی ماتھے پر چسپاں اسی لیبل کے ہاتھوں اغوا، قبائل و خاندان میں راضی نامہ کا تحفہ اور اجتماعی آبروریزی کا شکار بنی ہوئی ہے ، الزام کی چادر اوڑھے باپ کے گھر کی دہلیز سے رخصت ہو تی ہے اور جاگیرداروں ، وڈیروں ، اوباشوں کے قہقہوں میں اپنے خاندان اور باپ کی دشمنی کی قیمت چکاتی ہے ۔ ان کی ذات کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ گھر کی نا آسودگی اور والد کی معاشی مجبوری کے باعث جہیز کم لانے اور شادی کے بعد سسرال کے ناجائز مطالبات ِ زر پورا نہ کرنے کی پاداش میں تیل کے چولہے سے جسم جلا بیٹھتی ہے بلکہ تیل کا چولہا ہی موت کا سبب بنتا ہے ۔ماںکے پاؤں تلے جنت ڈھونڈنے والوں کا رویہ اور ان کے اعمال دیکھیں کہ معاشرہ میں چھوٹی بچی سے لے کر بوڑھیا تک اپنی نسوانی دولت کو درندوں سے بچا نہیں پاتی ۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں غیرت کے نام پر بہن ، بیٹی اور بیوی کو قتل کرنے والا لوگوں سے داد لینے کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔ ایک معزز قبیلہ کی دو لڑکیاں دشمنی کی وجہ سے اغوا ہوئیں ۔ قبیلے کے نوجوانوں نے دن رات ایک کر کے انہیں ڈھونڈ لیا ۔ جب گھر آئیں تو قبیلے کے بڑے نے بندوق کی گولیوں سے دونوں کو مار ڈالا ، گاؤں میں یہ بتا کر اپنی غیرت کی داد پاتے رہے کہ وہ گھر سے بھاگ گئی تھیں ۔ انہی معزز قبیلوں کے مردوں نے ایک سے زائد شادیاں کی ہوتی ہیں جبکہ جائیداد کو محفوظ رکھنے اور عزت کو دوسروں کے گھر کی زینت نہ بنانے پر ان کی اپنی بیٹیاں اور بہنیں حویلیوں ہی میں بوڑھی ہو جاتی ہیں ۔ انہی حویلیوں کی قید سے جان چھڑانے والی بہت سی باغی پاک دامنوں نے اپنی پسند کی پناہ گاہیں تلاش کیں اور کسی بندوقچی کے نشانے سے دُور آزاد فضا میں سانسیں لے رہی ہیں ۔
مجھے پہلے اُٹھانا ہے خود اپنی ذات کا ملبہ
پھر اس کے بعد گھر کی شکل میں تعمیر کرنا ہے

مزید پڑھیں:  جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی