ابہام اور تضادات

وزیر تجارت نوید قمر کا کہنا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں مزید توسیع کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ وفاقی حکومت کو کرنا ہے۔عام انتخابات کا انعقاد شاید جاری سیاسی اور آئینی بحران کے مرکز میں بنیادی مسئلہ ہے اور گزشتہ کئی مہینوں میں ہونے والے تمام تر واقعات کے باوجود ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کب منعقد ہوں گے۔ اتحادی حکومت بھی اس معاملے پر منقسم نظر آتی ہے کیونکہ مختلف کیمپوں کے اپنے اپنے مفادات اور تحفظات ہیں، لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ مسئلہ پہلے ہی اتنے عدم ہم آہنگی اور ناراضگی کا باعث بن چکا ہے انتخابات کے حوالے سے اتفاق رائے اور بروقت انعقاد دونوں ضروری ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے سینئر ارکان بار بار اس امر کا عندیہ دے رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)کی جانب سے اگست میں موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد تاریخ دینے کے بعد انتخابات کرائے جائیں گے۔ جبکہ انتخابات اس سال اکتوبر میں ہونے والے ہیں لیکن اس کے باوجود مخلوط حکومت کے رہنمائوں کی جانب سے مختلف بیانات بھی سامنے آتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے صدر اور جے یو آئی(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی اکتوبر میں انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جبکہ پی پی پی کے آصف علی زرداری نے دوٹوک ریمارکس دیے کہ انتخابات ان کی منظوری سے ہی ہوں گے۔اس طرح کے بیانات سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہونا فطری بات ہے اس حوالے سے حکومت اور اتحادیوں میں اتفاق رائے ہونا چاہئے ۔نیز یہ بھی اہم ہے کہ آیا پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے سربراہ عمران خان کی قسمت کا فیصلہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہو جائے گا اور اس حوالے سے کوئی ایسی صورتحال تو پیش نہیں آئے گی جوانتخابی عمل پر اثر انداز ہو نیز انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بھی معاملات ابھی واضح نہیں جب تک کہ 2017ء کی حد بندی کے عمل کی بنیاد پرانتخابات نہیں کرائے جاتے مذکورہ ٹائم لائن کی بنیاد پر انتخابات ک اپریل 2024ء تک آگے بڑھایا جا سکتا ہے ان تمام امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا اور غالباًتضاد بیانی کی پس پردہ جو بات بھی یہی ہیں حالانکہ حکومتی وزراء کا بار ہا اصرار ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں اس حوالے ے کیا صورتحال سامنے آتی ہے لیکن امید ہے کہ قوم ذاتی اور تعصبی مفادات کے لئے بروقت الیکشن سے محروم نہیں ہوگی ۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال