دہشتگردی کا بڑا واقعہ

ملک بھر میں محرم الحرام اور عاشورہ کے موقع پرکسی قسم کے ناخوشگوار واقعے کا رونما ہونے اور امن و امان سے یہ موقع گزرنے پر ابھی اطمینان کا اظہار باقی تھا جبکہ چین کے نائب وزیر اعظم کے اسلام آباد آمد کے موقع پر وفاقی دارالحکومت میں ان کا شایان شان استقبال اور سی پیک کے دس سال کی تکمیل پر پروگرام کا جائزہ اور عزم نو کے اظہار کے عین موقع پرباجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسے میں ممکنہ خود کش دھماکہ میں 45افراد کا جاں بحق ہونا اور 150 سے زائد افراد کا زخمی ہونا سخت تشویش کا باعث امر ہے یہ کافی عرصے بعد کسی سیاسی جماعت کے اجتماع کو نشانہ بنانے کا سنگین واقع ہے قبل ازیں کے واقعات میں پولیس اورسیکورٹی فورسز ہی نشانہ بنتی رہی ہیں عوامی مقامات اور سیاسی اجتماعات اب تک محفوظ تھیںمگراب یہ اجتماعات اورجگہیں بھی ایک بارپھر شدید خطرات کی زد میں آگئی ہیں مستزاد ایک ایسی سیاسی جماعت کے جلسے کو نشانہ بنانا جو جمہوری طریقے سے اور عوام سے ووٹ لے کر نظام کی تبدیلی کے لئے جدوجہد کر رہی ہو اور اس وقت بھی خیبر پختونخوا میں گورنر اور مرکز میں وزارتیں رکھتی ہو اس کے اجتماع کو نشانہ بنانے کا واقعہ خاص طور پر قابل توجہ امر ہے قبل ازیں صوبے میں جن سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ان سے اختلافات کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن جے یو آئی جیسی دینی جماعت متوقع دہشت گردوں کے لئے مختلف ہونی چاہئے تھی مگراس کی رعایت رکھے بغیر اس کے اجتماع کوبھی نشانہ بنایاگیا باجوڑ میں جے یو آئی کے رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی ہوتی رہی ہے۔ بہرحال یہ بدترین واقعہ مرکزی حکومت کی رخصتی سے ہفتہ دس دن قبل ہوا جس کے بعد ملک میں انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے اور باقاعدہ طور پر شروع ہوں گی دیکھا جائے تو ملاکنڈ میں جماعت اسلامی کا بہت بڑا اجتماع اور باجوڑ میں جے یو آئی کا اجتماع خیبر پختونخوا میں انتخابی سیاست کی ابتداء ہی تھی دیگر سیاسی جماعتیں بھی سیاسی اجتماات شروع کر چکی ہیں باجوڑ میں دھماکے کے اثرات سے ملاکنڈ میں جماعت اسلامی کے اجتماع کے متاثر ہونے کا امکان تھا لیکن بہرحال عملی طور پر ایسا نظر نہیں آیا بلکہ جماعت اسلامی نے ایک بڑا پاور شو کرکے اس امر کا تاثر دہرایا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں اب بھی اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی یہاں جماعت اسلامی پہلے ہی انتخابی ٹکٹیںبھی جاری کر چکی ہے بہرحال اس سے قظع نظر جہاں عام انتخابات کی فضا ہموار ہو رہی ہے ایسے موقع پر ایک سیاسی اجتماع کو نشانہ بنانا خطرے کی گھنٹی ہے خطرات کا سامنا ہونے کی پہلے ہی نشاندہی ہو چکی تھی اور سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے سکیورٹی اداروں نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا تاہم گزشتہ انتخابات بھی اسی طرح کے ماحول میں منعقد ہوئے تھے یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں 2008، 2013اور 2018کے عام انتخابات شدید بدامنی کے دوران ہوئے چکے ہیں تاہم 2018کے عام انتخابات کے بعد حالات بہتر ہوگئے تھے چند ماہ قبل دوبارہ سے دہشتگرد کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور رواں برس یہ خیبر پختونخوا میں دوسرا بڑا دھماکہ ہے قبل ازیں پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں 80سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے سیاسی جماعتوں کے اجتماع کو نشانہ بنانے کا ماضی قریب میں یہ پہلا واقعہ ہے جس نے ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کی صفوں میں تشویش پیدا ہونا فطری امر ہو گا عشرہ محرم کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم بھی شروع کرنی ہے تاہم باجوڑ دھماکے کے باعث اب بیشتر سیاسی جماعتوں نے حکمت عملی کی تبدیلی پر غور شروع کردیا ہے سیاسی جماعتوں کو سکیورٹی کی فراہمی بھی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کیلئے چیلنج بن گیا ہے۔ان تمام عوامل سے قطع نظر اسلام آباد میں اہم ملاقاتوں اور سرگرمیوں کے تناظر میں بھی باجوڑ کاواقعہ اہم ہے جس کا مقصد ملک دشمن اور بیرونی ہاتھوں کھیلنے والے ناصر ف ملک کی اقتصادی ترقی کے دوبارہ آغاز پروار ہے اس امر کا بھی امکان ہے کہ اس واقعے میں داعش ملوث ہو جبکہ ٹی ٹی پی اور القاعدہ کی باقیات کے ممکنہ اکٹھ کے بعد کی بھی صورتحال ہوسکتی ہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ نے حال ہی میں جنوبی اشیاء میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لئے ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے گٹھ جوڑ کے امکانات بارے پہلے ہی خبر دار کیا جا چکا ہے اس طرح کے واقعات کا اعادہ ملکی سلامتی کے اداروں کے لئے تازہ چیلنج ہے اور اس سے ایک مرتبہ پھر اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر صحیح طور پر عملدرآمد ہوتاتو آج شاید صورتحال مختلف ہوتی نیز ہمسایہ ملک کی حکومت اور اس کی پالیسیاں بھی مسائل کا باعث عوامل میں سے ہے اب ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کو کچلنے کے عزم کو دہرایا جائے گا مگر حالات اس امر کے متقاضی ہیں ادھورے نیشنل ایکشن پلان کو مکمل کیا جائے اور عزائم کے اظہار کے بعد ان پر کلی طور پر عملدرآمد میں بھی سنجیدگی اختیار کی جائے ۔

مزید پڑھیں:  سیاسی جماعتوں کے مطالبات ا ور مذاکرات