آئین اکبری اور توزک جہانگیری

گزشتہ روز اپنی لائبریری میں کتابوں کو الماری میں ترتیب دینے کی غرض سے بیٹھا تو ایک کونے میں چند بہت ہی پرانی کتابوں پر نظر پڑی ۔ یہ کتابیں میرے ایک مرحوم اُستاد نے تحفہ میں دی تھیں ، اس ارادہ سے الگ رکھی ہوئی ہیں کہ ایک تعلیمی ادارہ کو عطیہ کرنا ہے ۔ پرانی کتابوں کے بارے ایک علم دوست بزرگ کہا کرتے تھے کہ یہ اپنے پرانے قارئین سے تقاضا کرتی ہیں کہ مدت بعد کبھی کبھی ورق گردانی کر کے اپنی یادوں میں زندہ رکھا کریں ۔ میرے معمول میں یہ ورق گردانی شامل ہے اور مَیں ان کی دوستی سے غافل نہیں رہتا ۔ مَیں انہیں یادوں میں زندہ رکھنے سے کہیں زیادہ یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے بعض اہم اور دلچسپ مندرجات سے نئے پڑھنے والوں اور ان لوگوں کو بھی متعارف کرنا چاہیے جو کتاب اور مصنف سے آگاہ نہیں یا ان کے نام بھول گئے ہیں ۔ ان کتابوں کے بنڈل میں سے دو کتابوں ‘ آئین اکبری ‘ اور ‘ توزک جہانگیری’ کے مشمولات کو موجودہ دور کے سیاسی و سماجی تناظر میں پڑھنے لگا ۔ چند حوالے اور واقعات پڑھنے کے بعد خیال آیا کہ کیوں نہ اس بار کالم کے توسط سے ان باتوں کا ذکر اپنے قارئین کرام سے بھی کیا جائے کہ وہ بھی اگلے وقتوں اور موجود حکمرانوں کی سوچ اور اعمال کا تقابلی جائزہ لیں ۔
علامہ اَبوالفضل نے آئین اکبری میں حکمرانوں کی دو اقسام بیان کی ہیں ، ایک خود پسند اور خود غرض اور دوسرے بے غرض اور خیر پسند فرمانروا ۔ علامہ موصوف کی رائے ہے کہ پہلی قسم کے تخت نشین اپنے خزانے کی بھاری مقدار ، اپنی فوج کی مستعدی ، اپنے خدام کی اطاعت گزاری اور ہر وقت اسباب جاہ و حشم کی فراوانی پر نازاں رہتے ہیں ۔ دوسری قسم کے حکمران وہ ہیں جو عظمت و شوکت کے ان نشانوں پر مر مٹنے کی بجائے انہی وسائل کو حق و انصاف اور عوام الناس کی بہتری کے لیے بروئے کار لاتے ہیں ۔ ان اقسام میں اگر ہم بے غرض حکمرانوں کا جائزہ لیں تو تاریخی اعتبار سے معلوم پڑتا ہے کہ ایسے حکمرانوں کی موجودگی میں رعایا امن و سکون کی زندگی گزارتی ہے اور حکومتی اسباب سے گوہر مراد پاتی ہے ۔ یہ حکمران مُلکی معاملات طے کرنے میں اپنی نفسانی خواہشات کی بجائے عقل سلیم سے کام لیتے ہیں ۔ آج دُنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں ہم علم دوستی اور عقل سلیم کے ثمرات دیکھ رہے ہیں ۔شہنشاہ اکبر کی مذہبی پالیسی ہمیشہ زیر بحث رہی اور اہل علم نے اس سے اختلاف بھی کیا۔
علامہ نے ان کے کئی بیانات اور ارشادات نقل کیے ہیں لیکن ایسی باتوں اور مسلک کا کیا مذکور جو اکبر کے مرتے ہی دم توڑ گیا تھا ۔ ہاں مگر یہ جملہ اپنے قارئین کی فکر اور دلچسپی کے لیے درج کیے دیتا ہوں کہ” خدا تک رسائی ریاضت اور نیک کرداری پر موقوف ہے ” ، اس حوالے سے چلیں مان لیں کہ عوام کی اکثریت اپنی ناسمجھی کے باعث حاجت براری میں لگی رہتی ہے لیکن کیا بہت سے عالم ، دیندار اور تسبیح پروہتے حکمرانوں نے رضائے الہی کی طلب گاری میں کبھی اپنے کردار کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ عہد اکبری میں علوم و فنون کو عروج بھی حاصل ہوا ، ابتدائی درجے کے طلبا کو حروف کی شناخت ، الفاظ کے معنی ، اخلاقیات اور ادب پڑھنے کی تعلیم دی جاتی جبکہ اعلیٰ درجوں میں منطق ، طب ، سیاسیات ، زراعت ، نجوم اور ریاضی جیسے مفید علوم کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ انہی مغلیہ شہنشاہوں اور آنے والے مسلم سلاطین نے علم پروری کے سلسلے برقرار نہ رکھے ، مقابر اور قلعے یادگار چھوڑ گئے جبکہ مغرب نے علم دوستی میں تحقیق جاری رکھی ۔ علامہ ابوالفضل نے یہ کتاب بڑی محنت سے لکھی ہے ، یہ ایک لحاظ سے اس وقت کے ہندوستان کے علمی ، مذہبی ، معاشرتی ، زرعی اور اقتصادی حالات کا آئینہ ہے اور اسی بدولت مغلیہ دور کے مختلف پہلو واضح ہوئے ۔ ان کی دونوں کتابیں یعنی ‘ اکبر نامہ ‘ اور ‘ آئین اکبری ‘ مواد و معلومات کے حوالے سے قابل استفادہ ہیں لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مدح سرائی کی حد کر دی ہے ۔ مورخین اور ان کی کتابوں پر یہ اعتراض عام ہے کہ دربار میں بیٹھ کر شاہ کی وفاداری میں صرف اس کی نیکیاں ہی اچھال دیتے ہیں ۔ مورخین نے اگر اُمرائے سلطنت کے سوانح حیات میں اُن کی ذاتی خوبیوں اور مناصب کا حال اپنی خیر خواہی کے تناظر میں لکھا ہے تو شہنشا ہ نور الدین جہانگیر نے اپنی خود نوشت ” توزکِ جہانگیری ” میں اپنے دور حکومت کے اہم واقعات کو بڑے بے تکلف اسلوب میں بیان کیے ہیں ۔ جہانگیر نے ملک الشعرا فیضی جیسے با کمال شاعر سے اکتساب علم کیااور عبدالرحیم خان خاناں کے فیض سے بہرہ مند ہوئے تھے ، اس لیے ان اصحاب قلم کی علمی و ادبی کاوشوں کا اثر بھی خود نوشت سوانح پر غالب ہے ۔ جہانگیر نے زنجیر عدل کو آویزاں کرنے اور عوام کی فریاد سننے کا ذکر اپنے اصلاحی کارناموں میں کیا ہے ۔ ہمارے ہاں بھی حکمرانوں نے کھلی کچہری اور عوام کی آواز کے نام پر پاکستان سیٹزن پورٹل میں عوامی شکایات تک رسائی حاصل کی ہے ۔ حکمرانوں کی حقیقت تو سب کو معلوم ہے لیکن شاہی فرمان کی تعمیل میں کوئی زنجیر ہلا دیتا ہے ، کچھ لوگ کچہری میں محض بھڑاس نکال کر واپس آ جاتے ہیں تو کوئی آن لائن وزیر اعظم سے بات کر کے خوش رہتا ہے ۔
اپنی اس خود نوشت میں شہنشاہ اقرار کرتا ہے کہ علامہ ابو الفضل کے قتل میں اس کا ہاتھ تھا ، یہ ہم باپ بیٹے کے درمیان دیوار بن کر حائل تھا اوراپنی بے بنیاد باتوں سے والد کو بہکایا کرتا تھا ۔ وہ معترف ہے کہ شراب کا رسیا رہا اور اُمرا کے ہمراہ دادِ عیش بھی دیتا تھا ۔ ہمارے حکمرانوں کی عادت ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ڈھکی چھپی سے عوام کو آگاہ کرتے رہتے ہیں ۔ جہانگیر اپنی پردہ پوشی کو عیب سمجھتا اور موجودہ حکمران دوسروں کی پردہ پوشی کو عیب سمجھتے ہیں ۔ توزک جہانگیری میں مجدد الف ثانی کو عام قسم کا درویش کہا گیا ہے جو ایک معاندانہ رویہ کو ظاہر کرتا ہے ۔ شاید تصوف کے ذوق کی کمی ہو مگر خواجہ معین الدین اجمیری پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ان کی دعاؤں سے تولد ہوا ۔ یہ ایک صاحب نظر اور جمالیاتی ذوق رکھنے والے حکمران کی داستانِ حیات ہے ، ہمار ے حکمرانوں کو بھی توفیق ملے کہ ایسی توزک لکھیں کیونکہ وہ حسن پرستی اور اعلیٰ ذوق میں جہانگیر سے کم نہیں ہیں ۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم