جنگوں کا شراکت دار

باجوڑ میں جے یو آئی کے جلسے میں خودکش حملے نے پاکستان میں ایک بار پھر تباہی وبربادی کی داستان رقم کر دی ہے ۔ابھی تک اس حملے میں پچاس سے زیادہ افراد جاں بحق اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں ۔اس واقعے کی گونج عالمی سطح پر بھی سنائی دی اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے ۔دہشت گردی کی دوسری لہر اور دوسرا دور شروع ہوئے سال بھر کا عرصہ ہو چکا ہے اس طرح یہ کوئی نیا اورپہلا واقعہ نہیں اور بدقسمتی کی بات یہ کہ یہ آخری واقعہ بھی نہیں ۔باہر کا ماحول اور آثاربتاتے ہیں کہ پاکستان ایک بار پھر حالات کی دلدل میں پائوں رکھ چکا ہے ۔پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا عمل آہستہ روی سے جاری ہے ۔جن میں تازہ ترین یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کی طرف سے جاری ہونے والا تھریٹ الرٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی اور لاہور کے اوپر سے پروازیں کرتے ہوئے تمام ائر لائنز اپنی پروازایف ایل 260سے کسی طور کم نہ کریں کیونکہ موجودہ سیکورٹی صورت حال میں پاکستان میں نان سٹیٹ ایکٹرز کے پاس ایسے اینٹی ایوی ایشن ہتھیاروں کی اطلاعات ہیں جنہیں ایک فرد با آسانی اُٹھا سکتا ہے۔مغرب میں جس ملک کے بارے میں یہ خبریں چلنا شروع ہوں تو سمجھ جانا چاہئے اس کی معیشت برباد ہوگئی ،اس کی سیاحت کا جنازہ نکل گیا ،اس کی ساکھ سمندروں کی نذر ہوگئی ۔کچھ ہی عرصہ پہلے امریکہ نے اپنے سفارت کاروں کے لئے ایک تھریٹ الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ میریٹ ہوٹل میں نہ جائیں کیونکہ وہاں دہشت گردوں کا حملہ ہوسکتا ہے ۔اس ہدایت سے پہلے ہی اسلام آباد کے خارجی اور داخلی راستوں پر نگرانی کا کام تیز کردیاگیا تھا ۔امریکہ کا اپنے شہریوں اور سفارت کاروں کے لئے انتباہ پاکستان میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا اشارہ ہے ۔یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر جنرل
پرویز مشرف کے دور میں پہنچ رہاہے جب اسلام آباد سمیت ملک کا کوئی بھی علاقہ دہشت گردوں کی پہنچ سے دور نہیں تھا ۔ملک میں چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے عفریت نے ایک بار پھر سر اُٹھا لیا ہے ۔خیبر پختون خواہ سے ہوتا ہوا یہ عفریت اسلام آباد میں پہنچ چکا ہے ۔بلوچستان میں پہلے دہشت گردی کی رفتار دھیمی ہوئی تھی ختم نہیں ہوئی تھی ۔گزشتہ چند دنوں میں ملک میں دہشت گردی کے پہ درپہ واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔بلوچستان کے علاقے کوہلو میں ایک آپریشن کے دوران بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک فوجی گاڑی تباہ ہونے سے چھ جوانوں کی شہادت ہوئی تھی اس سے پہلے بنوں کینٹ میں ہونے والاواقعہ چشم کشا تھا جہاں جیل توڑ کر نکلنے والے دہشت گردوںنے ٹی ڈی سی کے دفتر پر قبضہ کرکے اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا ۔دہشت گردوں نے یرغمالیوں کی وڈیو ز بھی ریلیز کیں اور اپنے لئے افغانستان تک محفوظ راہداری کا مطالبہ بھی کیا ۔وہ انتہائی تحکمانہ انداز میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے افغانستان پہنچانے کا مطالبہ کرتے رہے۔جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے قبضہ چھڑانے اور یرغمالیوں کوبچانے کے لئے آپریشن کا فیصلہ کیا ۔یہ ایک طویل آپریشن ثابت ہوا جس میں تنتیس دہشت گرد مارے گئے جبکہ سیکورٹی فورسز کا معمولی نقصان ہوا۔ اسلام آباد میں ایک خود کش حملے میں ایک پولیس اہلکار شہید ہواتھا۔خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کی جس لہر اُبھر نے کے خدشات نوشتۂ دیوار تھے اب پوری طرح ٹھاٹھیں ماررہی ہے ۔یہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کی واپسی ہے یا دہشت گردی کہیں گئی ہی نہیں تھی یہ بحث کا موضوع ہو سکتا ہے مگر اس میں دورائے نہیں کہ دہشت گردی دوبارہ پاکستان میں اپنے پر پھیلا رہی ہے ۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹونیو گوئٹرس نے پہلے بھی کہا تھا کہ طالبان اپنی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کو روکیں ۔اسی دوران امریکہ نے بھی کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ہی امریکہ نے کہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے میں مدد دینے کو تیار ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پہنچتا جا رہا ہے جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اگلا مورچہ اور اتحادی تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ خودبدترین دہشت گردی کے باعث مضمحل اور لہولہان تھا ۔امریکہ پاکستان کو دہشت گردی سے بچانے کے نام پر سلامتی اور تحفظ کا پورا متوازی نظام پاکستان میں کھڑا کر چکا تھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ کو پاکستان کے سیکورٹی اداروں پر اعتبار نہیں تھا وہ سمجھتا تھا کہ پاکستان اس کے ساتھ ڈبل گیم کررہا ہے ۔ایک طرف وہ طالبان کی حمایت کر رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور تھا ۔ڈبل گیم کے اس الزام کے تحت امریکہ پاکستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کررہا تھا ۔حالات وواقعات نے ثابت کیا تھا کہ امریکہ کا یہ نیٹ ورک بلیک واٹر اور کچھ این جی اوز کے نام سے کام کررہا تھا پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں براہ راست ملوث تھا یا دہشت گردی کی فنڈنگ کر رہا تھا ۔ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ اس نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کا باعث بنا تھا ۔ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی جاسوس نے د وپاکستانی شہریوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا اور پھر چند دن تھانے میں رہ کر رہائی کا پروانہ لے کر اُڑن چھو ہو گیا تھا ۔اس واقعے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی نے آگے چل کر سلالہ کا رنگ اختیار کیا تھا جہاں پاکستان کی ایک سرحدی چوکی پر امریکی جنگی جہازوں نے حملہ کرکے دو درجن فوجیوں کو شہید کیا تھا ۔پاکستان نے اس ردعمل میں نیٹو سپلائی معطل کر دی تھی ۔ان واقعات کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سردمہری کا شکار ہوتے چلے گئے تھے ۔افغانستان سے انخلا ء کے بعد امریکہ کو دوبارہ اپنے موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کی ضرورت پیش آئی اور امریکہ نے پاکستان سے فضائی سپیس اور اڈوں کا مطالبہ پرائیویٹ انداز میں دہرانا شروع کیا ۔افغانستان میں جب تک اشرف غنی اور کرزئی کی حکومتیں رہیں اور خود امریکی بگرام ائر بیس میں موجود رہے انہیں پاکستان کی ضرورت نہیں تھی مگر جب وہ اس کمیں گاہ سے محروم ہوگئے تو انہیں چین اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر نظر رکھنے کے لئے ایک جائے پناہ کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسی ضرورت کے تحت امریکیوں نے پاکستان سے دوبارہ رسم وراہ پیدا کرنا شروع کی ۔جب سے یہ رسم وراہ بڑھی ہے پاکستان دوبارہ دہشت گردی کی دلدل میں دھنسنے لگا ہے ۔جس امن کو قائم کرنے کے لئے پاکستان نے کئی فوجی آپریشن کئے اورہزاروں جانیں قربان کیں وہ امن دوبارہ دائو پر لگ چکا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس جنگ کا ایندھن پاکستان کے عام اور معصوم شہری ہیں ۔پاکستان بہت دعوئوں اور ارمانوں کے ساتھ اربوں روپے خرچ کرکے باڑھ لگائی تھی وہ بھی دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں غیر موثر ثابت ہوگئی ہے ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان امریکہ اور مغرب کے لئے امن کا اور تجارت کا شراکت دار نہیں جنگوں کا ساتھی بن کر رہ گیا ہے۔ اس لئے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کو گریٹر گیم کے فریم سے نکال کر سمجھنا اور دیکھنا ممکن ہی نہیں۔

مزید پڑھیں:  سیاسی جماعتوں کے مطالبات ا ور مذاکرات