مشرقیات

سلطان رکن الدین بیبرس کی جو 19جولائی 1223ء کودشتِ قپچاق میں ایک خانہ بدوش قبیلے میں پیدا ہوئے،قپچاق ترک عہد وسطیٰ میں یورپ و ایشیا ء کے درمیانی علاقے میں آباد تھے ۔بیبرس ہلاکو خان اور غیاث الدین بلبن کا ہم عصر تھا اور کہا جاتا ہے کہ بیبرس کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تھا ۔پھر وہ اپنے زورِ بازو سے سلطانِ مصر و شام بنا۔ الملک الظاہر رکن الدین بیبرس کا اصل نام البند قداری، لقب ابولفتوح تھا لیکن بیبرس کے نام سے شہرت پائی۔بیبرس سیف الدین قطز کا جانشین اور مصری افواج کے ان کمانڈروں میں سے ایک تھا جس نے فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کو ساتویں صلیبی جنگ میں شکست دی۔ رکن الدین بیبرس (620ھـ676ھ) کے 3 کارنامے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔پہلا کارنامہ یہ تھا کہ بیبرس نے سلطان سیف الدین قطز کے ساتھ مل کر منگولوں کو معرکہ عین جالوت میں عبرتناک شکست دی۔ اس جنگ میں منگولوں کا وہ حال کیا کہ اسکے بعدوہ دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے اس طرح حجازِ مقدس اور مصر منگولوں کے ظلم سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئے۔یہ سلطان رکن الدین بیبرس کا دوسرا شاندار کارنامہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے تقریبا ًپونے دو صدی تک چلی صلیبی جنگوں کا خاتمہ کیا اور صلیبیوں کو ایسی عبرتناک شکست دی کہ پھر وہ دوبارہ حملہ کرنے کے قابل نہ رہے۔بیبرس کا تیسرا کارنامہ یہ تھا کہ 659ھ میں مصر میں رسمی سہی مگر خلافتِ عباسی دوبارہ قائم کی جبکہ مغلوں نے بغداد کو تہس نہس کرکے خلافتِ عباسی کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا۔بیبرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھیس بدلنے کا شوقین تھا۔کبھی وہ گداگر کا روپ دھارتا اور کبھی مہمان بن کر دسترخوان پر اکیلا مزے اڑاتا دکھائی دیتا، بلا کا حاضر دماغ تھا۔۔ اسے دمشق میں تقریباً 500 روپے میں فروخت کیا گیا ۔ بلا کا خوش طبع انسان تھا گھوڑے پر سوار ہو کر اکیلا نکل جاتا تو دوسرے دن فلسطین میں نمودار ہوتا اور چوتھے دن صحرائے عرب میں ملتا۔ ایک دن بیبرس نے ایک تاتاری سپاہی کا بھیس بدلا اور تن تنہا شمال کی طرف غائب ہوگیا کئی دن سفر کرنے کے بعد وہ تاتاریوں کے علاقے میں داخل ہوا اور جگہ جگہ گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لینے لگا۔انگریز مصنف ہیر لڈیم اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے کی وجہ سے وہ ہر قسم کے لوگوں میں گھل مل جاتا اسلئے اس پر کسی کو شبہ نہ ہوا ایک دن اس نے تاتاری علاقے کے کسی نانبائی کی دکان پر کھانا کھایا اور ایک برتن میں اپنی شاہی انگھوٹی اتار کر رکھ دی پھر اپنے علاقے میں واپس آگیا اور وہاں سے تاتاری فرمانروا کو خط لکھا۔۔”میں تمہاری مملکت کے حالات کا معائنہ کرنے کیلئے فلاں جگہ گیا تھا نانبائی کی دکان پر انگھوٹی بھول ا?یا ہوں مہربانی فرما کر وہ انگھوٹی مجھے بھجوادو کیونکہ وہ مجھے بہت پسند ہے۔” قاہرہ کے بازاروں میں لوگ یہ قصہ سن کر قہقہے لگاتے تھے۔

مزید پڑھیں:  سیاسی جماعتوں کے مطالبات ا ور مذاکرات