لکیر پیٹنے کا عمل

بالاخر باجوڑ دھماکے میں کسی تنظیم کے ملوث ہونے کے حوالے سے شبہات کا ازالہ ہوا ہے داعش کی جانب سے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی گئی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق دھماکے میں وہی دہشتگردتنظیم ملوث ہے جس نے پہلے بھی علمائے کرام کو بھی نشانہ بنایا ہے اور انکی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔اس سے قبل مولانا سلطان محمد، قاری الیاس،مولانا شفیع اورمولانا بشیر کوبھی نشانہ بنایا ۔رواں سال پشاور میں بھی علمائے کرام اوراقلیتی برادری کے افراد کوٹارگٹ کیاگیا اور خیبر پختونخوا پولیس حکام کے مطابق ان واقعات میں ایک ہی گروہ ملوث ہے۔داعش کی جانب سے واقعے کی ذمہ داری قبول نہ کی جاتی تو پولیس حکام کا بیاں مبہم تھا یہ تو ہر کسی کے علم میں ہے کہ اس طرح کے واقعات دہشت گرد عناصر ہی کرتے آئے ہیں مگر اس میں دہشت گردوں کاکونسا گروپ ملوث ہے اس حوالے سے کم ازکم پولیس کی جانب سے کوئی واضح بات ہوتی تواس امر پریقین کئے جانے میں آسانی ہوتی کہ پولیس کی تفتیش میں واقعی ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے بجائے اس کے اگر دیکھا جائے تو پولیس نے ابھی تک محض ضابطے کی کارروائی ہی مکمل کی ہے جب تک جیوفیسنگ کے ذریعے کوئی اہم گرفتاری نہیں ہوتی یا کم از کم اس کی میڈیا کو اطلاع نہیں ہوتی اس وقت تک معاملات اندھیرے میں تیرچلانے کے مصداق ہی سمجھے جائیں گے حملہ آور تو خود اپنے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ چکا مگر اس کے سہولت کار اور ان کو بحفاظت جلسہ گاہ تک پہنچانے ان کو ٹھہرانے اور اطلاعات سے آگاہی دینے والے کئی افراد ہو سکتے ہیں جن کی گرفتاری کے بعد ہی اصل صورتحال سامنے آئے گی ایک حیران کن بات یہ کہی جا رہی ہے کہ پولیس نے جلسے کی حفاظت سے انکار کیا تھا اگر ایسا نہیں تو بھی پولیس کی جانب سے جلسے کی حفاظت کی ذمہ داری کے حوالے سے ارتکاب غفلت تو کوئی پوشیدہ امر نہیں یہ بھی کوئی نئی بات نہیںکہ ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پولیس کو اس گروہ تک رسائی میں کامیابی کیوں نہ ہوسکی اچھی انٹیلی جنس اسے کہا جاتا ہے کہ پیشگی دبوچ لیاجائے واردات کے بعد توبس لکیر پیٹنا ہی باقی رہ جاتا ہے کم از کم جلسے ہی کی سخت حفاظت کا انتظام کیا جاتا تو اس طرح کے بڑے سانحے کی بڑی حد تک روک تھام ممکن تھی وقوعہ کے ہونے کے بعد اب روایتی تفتیش اور دعوئوں کی صورتحال چند دن رہے گی اوردیگر بہت سارے واقعات کی طرح اس واقع پر بھی گردکی دبیز تہہ جم جائے گی اور دہشت گرد عناصر کی دوسرے واقعے کی منصوبہ بندی کرنے لگ جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے