خون حسین کی قسم یہی ہے ارض کربلا

حق و باطل روز ازل سے ہی آپس میں نبرد آزما ہیں، انسانی تاریخ نے حق وباطل کے درمیان بہت سے معرکے دیکھیں ہیں، لیکن حق و باطل کا جو معرکہ کربلا کے میدان میں رونما ہو اس کی مثال نہیں ملتی، اس جنگ کا مظلوم نواسہ ء رسول ۖ اور آپ کی آنکھ کا تارا آج بھی ایک محترم فاتح اور ہر انصاف پسند انسان کے لئے بہترین نمونہ ہے جبکہ ظالم ابد تک کے لئے شکست خوردہ اور انسانیت کی نگاہ میں قابل نفرت ہے، یہ معرکہ اس لئے بھی اہم تھا کہ اس میں آقا ۖ کے اہل بیت پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اور اس لئے بھی اہم تھا کہ کہ اس معرکے نے رہتی دنیا تک ایسا درس دیا ہے کہ اگر انسانیت اس درس پر عمل کرے گی تو ہمیشہ سرخرو ہوگی اور اگر ہماری طرح اس درس کو فراموش کردے گی تو دین اور دنیا میں رسوائی مقدر ہو گی، حضرت حسین ظاہری اور باطنی کئی اعتبار سے آقا سے مشابہت رکھتے تھے، ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس مشابہتِ رسول اللہ کااثر فقط جسم کے ظاہر ی اعضاء تک ہی محدود نہ تھابلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے آپ کاچال چلن، گفتار رفتار، جلوت خلوت، قول وعمل،ایثاروہمدردی، عادات واطوار، خوش خلقی،حسن سلوک، مروت رواداری،شجاعت وعزیمت، دور اندیشی وفر است،حکمت ودانائی،علم وتقویٰ، زہدوورع،خشیت وللٰہیت، محبت ومعرفتِ خداوندی الغرض نبی کریمۖکے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے، حضرت حسین سرور کائناتۖ کے نواسے، امیر المومنین علی اور خاتونِ جنت فاطمة الزہرائ کے صاحب زادے تھے لیکن باوجود اس کے ان کی شخصیت میں عجز و انکساری نمایاں تھی، حضرت حسین، آقا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کبھی پوری رات نماز میں ہوتے ، کبھی تلاوت میں، کبھی مخلوق کی خدمت میں، کبھی سخاوت میں اور ہمہ وقت اوامر و نواہی پر عمل کرتے دکھائی دیتے، معرکہ کربلا بیان
کرتے وقت ہم یہ یاد نہیں رکھتے کہ حضرت حسین انسانی فضائل و کمالات اور اسلامی اخلاق کے نمونہ عمل تھے اور سخاوت، کرامت، عفو و بخشش، شجاعت و بہادری، ظلم و ستم کا مقابلہ آپ کی آشکارا خصوصیات تھیں، آپ نے فرمایا تھا کہ لوگو! رسول اللہ ۖ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، محرّماتِ الٰہی کو حلال کرنے والے، خدا کے عہد کو توڑنے والے، اللہ کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً و عملاً اسے بدلنے کی کوشش نہ کی، تو اللہ کو حق ہے کہ اس شخص کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے، آگاہ ہوجاؤ! ان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے، اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے مُلک میں فساد پھیلایا ہے، حدود اللہ کو معطّل کردیا ہے، یہ مالِ غنیمت سے اپنا حصّہ زیادہ لیتے ہیں، انہوں نے خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کردیا ہے اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کردیا ہے، اس لیے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے، (ابن اثیر، الکامل )، اسی طرح جب حضرت حسین اپنے جاں نثاروں کے ساتھ کربلا کی جانب روانہ ہوئے اور روکنے والوں نے آپ کو روکنا چاہا، تو آپ نے تمام باتوں کے جواب میں ایک بات فرمائی کہ میں نے اپنے نانا کو خواب میں دیکھا ہے، آپۖ نے تاکید کے ساتھ مجھے ایک دینی فریضہ انجام دینے کا حکم دیا ہے، اب بہرحال میں یہ فریضہ انجام دوں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ، (ابن جریر طبری)، حضرت حسین نے دین محمدۖ کو بچانے کے لیے اپنا تن من دھن، اپنا وطن، اولاد، مال، دولت ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے، اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب تاریخ عالم نے دیکھا کہ ایک طرف ہزاروں لوگ جو بظاہر مسلمان تھے اپنے محبوب نبیۖ کے محبوب نواسے کو بھوکا اور پیاسا دیکھتے خوشی محسوس کررہے تھے، لیکن حضرت حسین کو اور ان کے جان نثاروں کو پانی کا ایک گھونٹ پلانا ان کی نظر میں بڑا جرم تھا، درحقیقت یہ مقام رضا تھا جہاں بڑے بڑے اولیاء اللہ بھی ڈگمگاتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا فیصلہ ہے کہ انسان کو بھوک، خوف، مال، ثمرات وغیرہ کی کمی سے آزمایا جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کی رضا پر راضی رہتا ہے یا نہیں لیکن تاریخ عالم نے دیکھا کہ حضرت حسین نے اس مقام پر بھی رضا کا دامن نہیں چھوڑا اور جابر و ظالم کے سامنے اپنی گردن نہ جھکائی اور آپ کے سامنے آپ کے جان نثاروں کو ایک ایک کرکے شہید کیا گیا، قارئین کرام ابن خلدون جو تاریخ اور فلسفہ کے بانی کہلاتے ہیں انہوں نے یہ قاعدہ بیان کیا تھا کہ جو واقعہ دنیا میں جس قدر مقبول اور مشہور ہوگا اتنی ہی زیادہ افسانہ سرائی اُسے اپنے حصار میں لے لے گی، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حضرت حسین کی شہادت شاید اسی کلیے اور قاعدے کے تحت افسانہ سرائی کے زبانی و کلامی ریشم میں لپیٹ کر رکھ دی گئی، حضرت حسین کی شخصیت اور آپ کی شہادت میں ہمارے لئے کیا سبق تھے ہم نے یکسر فراموش کر دیئے ہیں، ہم تخیلاتی انداز میں واقعات تو بیان کرتے ہیں لیکن عمل سے بیگانہ ہیں، انداز بیان ایسا ہوتا ہے کہ سننے والے بجائے عمل کے واقعات ہی کو افسانہ سمجھ کر صرف سننے سنانے میں مگن ہوجاتے ہیں، یاد رہے کہ حضرت حسین کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے، حضرت حسین سب کے ہیں اور محبت حسین کو فقط رسمی بنا دیا گیا ہے اور ہماری عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا،حضرت حسین نے ا للہ کی رضا اور اسلام کی بقاء کے لئے شہادت دے کر نہ صرف اپنے عہد میں غرور ملوکیت کو چکنا چور کیا، بلکہ پوری تاریخ کا رخ موڑ دیا اور ہم صرف اپنی زندگی کا رخ نہیں موڑ سکتے، حضرت حسین نے دشمن کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کہاتھا کہ عزت کی موت ذلت وخواری کی زندگی سے بہتر ہے اور آج ہماری زندگیاں ذلت و خواری سے عبارت ہیں، شہادت حسین کا فلسفہ صرف یہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی، وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے، سماج میں ظلم و ستم کے خلاف ڈٹ جانا، زندگی کے معاملات میں حوصلہ مندی اور درگزر سے کام لینا شہادت حسین کے درس ہیں، دعوت الی اللہ اور حق کے لیے اپنے آپ کو اور اپنی سہولتوں، آرام اور آسائش کو قربان کرنا ہے اور ظاہری اسباب اگر میسر نہیں تو ان کی غیر موجودگی میں بھی حق کے لیے نکلنا سیدنا حسین کی سنت ہے اور اُن سے پہلے ان کے نانا سید الانبیا کی سنت ہے، حضرت حسین سے منقول ہے کہ نماز کے بعد بہترین کام کسی مومن کے دل کو خوش کرنا ہے اگر اس کام میں گناہ نہ ہو، کیا آج ہمارے اندر یہ اوصاف کسی بھی درجے میں موجود ہیں، اگر آپ ہر طرف ظلم، انصافی، استحصال اور بے رحمی کا بازار گرم ہے تو یہ بھی کسی کربلا سے کم نہیں کیونکہ ایسا صرف یزید ہی کر سکتا ہے،بقول شاعر
خون حسین کی قسم یہی ہے ارض کربلا
لاکھوں یزید ہیں یہاں، کلمہء حق اٹھا کے دیکھ

مزید پڑھیں:  اسے نہ کاٹئے تعمیر قصر کی خاطر