ستائیس نئی یونیورسٹیوں کا قیام

یونیورسٹی ایک ایسے ادارے کو کہا جاتا ہے جہاں سائنسی تکنیکی تحقیق اور سماجی تنظیم کے ذریعے سچائی کی تلاش کی جاتی ہے اس میں اساتذہ ،طلباء علم کے حصول تفہیم، ترسیل ،تحقیق ،تخلیق اور پھیلاو کا حصہ بنتے ہیں ، دنیا میں اس وقت رجسٹرڈ یونیورسٹیوں کی تعداد 29557 ہے براعظم ایشیاء میں 15447 براعظم افریقہ میں 2110براعظم یورپ میں 5565براعظم جنوبی امریکہ میں 5234براعظم شمالی امریکہ میں 629اور براعظم آسٹریلیا میں 272 یونیورسٹیاں ہیں ۔ جو اس وقت دنیا کی آبادی 8,045,311,447کو حصول علم اور تحقیق کے لیے پلیٹ فارم مہیا کررہی ہیں ۔یونیورسٹیوں کی ابتداء کہاں سے ہوئی یہ ایک طویل تاریخی بحث ہے جس میں بہت سے اختلافات موجود ہیں لیکن یونیورسٹیوں اور تہذیبوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو اقوام تہذیب یافتہ ہیں ان کے ہاں زمانہ قدیم سے یونیورسٹیوں کا وجودملتا ہے قدیم یونان، گندھارا تہذیب اور دیگر قدیم تہذیبوں میں یونیورسٹیوں سے ملتی جلتی تعلیمی درسگاہوں کا وجود تھا۔ زمانہ جدید میں اس کا سہرا جامعہ القروین کے سر جاتا ہے یہ یونیورسٹی مراکش میں 859 عیسوی میں قائم کی گئی ابن خلدون ،ابن روشد وغیرہ نے یہاں سے تعلیم حاصل کی تھی دوسری یونیورسٹی اف بلوگننہ ہے(Bologna )جو اٹلی میں 1088 عیسوی میں قائم کی گئی اس کے بعد ایک طویل فہرست ہے جس میں ہر آنے والے برس کے بعد اضافہ ہوتا گیا اور دنیا ان کی وجہ سے سائنسی ، سماجی، معاشی ،طبی اور علومی ترقی کے زینے چڑھتی گئی اور آج ہم مصنوعی ذہانت کے دور میں داخل ہوچکے ہیں ۔قیام پاکستان سے پہلے پاکستان میںدو ہی یونیورسٹیاں تھیں پنجاب یونیورسٹی اور ڈھاکہ یونیورسٹی، قیام پاکستان کے بعد1950 میں پشاور یونیورسٹی اور پھر1951 میںکراچی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیااس کے بعد ملکی ضروریات کو مد نظر رکھ کر دیگر یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ہمارے صوبہ میں دوسری یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں گومل یونیورسٹی کے نام سے بنائی گئی اور پھر پشاور یونیورسٹی کے دو کالجوں ایگریکلچر اور انجینئرنگ کو توسیع دے کر یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ۔ اس کے بعد ایک ساتھ ہزارہ ، ملاکنڈ ، بنوں اور کوہاٹ میں یونیورسٹیاں بنائی گئیں ۔ اس وقت صوبہ میں ٣٢ سرکاری یونیورسٹیاں ہیں ۔ جبکہ ملک میں اس وقت 244یونیورسٹیاں ہیں جن میں 145سرکاری اور99نجی شعبہ کی ہیں ۔اس حساب سے تقریباً دس لاکھ لوگوں کے لیے اوسطاً ایک یونیورسٹی ہے ۔جبکہ امریکہ میں یہ شرح ایک لاکھ لوگوں کے لیے ایک یونیورسٹی ہے وہاں یونیورسٹیوں کی تعداد 3197 ہے۔پاکستان کی تقریباً تمام یونیورسٹیاں عالمی طور پر تیسری اور چوتھے درجے کی یونیورسٹیاں ہیں جس کی کئی ایک وجوہات ہیں ، سب سے بڑی وجہ نظام و ذریعہ تعلیم کا بوسیدہ طریقہ کار ہے پھر ان یونیورسٹیوں کو جدید دنیا کی یونیورسٹیوں کے مقابلہ میں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر فنڈنگ ملتی ہے ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان جو یونیورسٹیوں کو فنڈنگ مہیا کرنے کی ذمہ دار ہے اس کو اس برس 85ارب روپے کا بجٹ ملا ہے ، اس بجٹ سے ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنی تنخواہوں کا انتظام کرتی ہے اپنا دفتری خرچے بھی نکالتی ہے اسکالرشپس دیتی ہے طلبا کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجواتی ہے اور جو بچ جاتا ہے وہ یونیورسٹیوں میں تقسیم کردیتی ہے جس سے یونیورسٹیوں کے ملازمین کی تنخواہوں کا صرف 34فیصد خرچہ پورا ہوتا ہے جبکہ باقی 66فیصد تنخواہ یونیورسٹیاں اپنی آمدن سے پورا کرتی ہیں ۔تنخواہوں کے علاوہ بھی اس ہی کے نصف کے برابر دیگر اخراجات ہیں جیسے یوٹیلٹی بلز ، مرمت و انتظام ، ٹرانسپورٹ اور آئی ٹی کے اخراجات وغیرہ وہ بھی یونیورسٹیاں خود سے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ اس لیے یونیورسٹیوں میں تحقیق کے لیے کوئی پیسہ گزشتہ دس بارہ برسوں میں مختص ہی نہیں کیا گیا ،البتہ ڈاکٹر عطاالرحمن کے دو اداروں کو گزشتہ برسوں میں کئی ارب روپے دئیے گئے جن کا ثمر کیا نکلا ہے وہ کسی کو معلوم نہیں ہے اور نہ ہی ان پیسوں کا کوئی آڈٹ ہوسکتا ہے اس لیے کہ گزشتہ چیئرمین ہائرا یجوکیشن کمیشن نے جب آڈٹ کا مطالبہ کیا تو ان کی مدت ملازمت کو دو برس کم کرکے انہیں فارغ کردیا گیا ۔خیبر پختونخوا کی وہ یونیورسٹیاں جو دو ہزار پندرہ کے بعد بنی ہیں گزشتہ برس تک ان کو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے فنڈنگ شروع ہی نہیں کی تھی۔یہاں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ باقی ملک کی یونیورسٹیوں کی فنڈنگ ہائرایجوکیشن کمیشن فوری شروع کردیتی ہے اور خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں کے لیے کہتی ہے کہ ان کی فنڈنگ وہ تین برس کے بعد شروع کریں گے اس کے لیے جواز یہ دیتے ہیں کہ آپکے صوبہ نے کہا ہے کہ وہ تین برس کی فنڈنگ خود دیں گے ۔یہ فیصلہ جس بھی سیاسی یا انتظامی بندے نے کیا ہے اس کو قرار واقعی سزاد دینی چائیے اس لیے کہ آج تک صوبہ کے بجٹ میں اس مقصد کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا اور صوبہ کی یونیورسٹیوں کے ساتھ یہ ظلم عظیم روا رکھا گیا ۔تین برس تو چھوڑیں دس برس بعد ہائرایجوکیشن کمیشن نے یعنی اس برس ان بارہ یونیورسٹیوں کے لیے فی یونیورسٹی دو کروڑ روپے کا بجٹ رکھا ہے جس میں طلبا کی اسکالرشپس بھی شامل ہیں کمال کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی یونیورسٹی کے ملازمین کی ایک ماہ کی تنخواہ ڈھائی کروڑسے کم نہیں ہے یعنی ہر یونیورسٹی کی پندرہ دن کی تنخواہ سے بھی کم ۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے درکار 240ارب روپوں کی جگہ 85ارب دینا ہے اور کمال ملاحظہ کریں کہ 2007 میں ہائر ایجوکیشن کا بجٹ اس سے زیادہ تھا جبکہ یونیورسٹیوں کی تعدا د اس وقت آج کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھی اور ڈالر کا ریٹ 60 روپے تھا ۔ اب آتے ہیں اصل ٹاپک پر کہ حکومت نے ایک ہی دن میں27نئی یونیورسٹیوں کے بل اسمبلی سے پاس کروالیے ۔ یہ اگر اصولاً دیکھا جائے تو بہت ہی خوش آئند فیصلہ ہے کہ ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانی چاہئیے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کا پروگرام بھی یہی ہے کہ 2025تک سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد 300تک بڑھائی جائے تاکہ کم ازکم 15فیصد خواندہ طبقہ یعنی کالج پاس طلبا کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی دی جاسکے ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت موجود یونیورسٹیاں مسائلستان بن چکی ہیں جہاں کسی بھی یونیورسٹی کے پاس تنخواہیں دینے کیلئے فنڈز موجود نہیں ہیں ، یونیورسٹیوں میںسیاسی مداخلت اپنی انتہاکو چھو رہی ہے ، یونیورسٹیوں میں غیر ضروری کلاس فور کلاس تھری ملازمین کی سیاسی بھرتیوں کا عمل کئی برس سے جاری ہے جس سے یونیورسٹیاں مزید مالی بحرانوں کا شکار ہورہی ہیں ،یونیورسٹیوں میں اپنے ہزاروں پنشنروں کو دینے کے لیے ان کے پاس ایک روپیہ نہیں ہے ،یونیورسٹیوں کے بی پی ایس اساتذہ کی پچاس ہزار تعداد کے لیے کوئی سروس سٹرکچر موجود نہیں ہے ۔یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کرکے اساتذہ بیس بیس برس سے ترقی کے انتظار میں ایک ہی گریڈ میں نوکری کررہے ہیں ۔اقرباء پروری اور گروہ بندی کا دور دورہ ہے ایسے میں یہ نئی یونیورسٹیاں اگر بن گئیں تو ان کوکہاں سے فنڈنگ دی جائے گی ، یہ عمل حکومت صرف سستی شہرت اور کلاس فور ملازمین کی بھرتی کیلئے کررہی ہے ۔نئی یونیورسٹیاں ضرور بنانی چاہئیں لیکن اس سے پہلے ضروری یہ ہے کہ گزشتہ ادوار میں بنائی گئی یونیورسٹیوں کو مالی طور پر مستحکم کیا جائے وہاں حقیقی اور مفید تعلیم دینے کے مطلوبہ وسائل دینا حکومت کی ذمہ داری ہے معاشرتی اور معاشی ترقی کے لیے ملکی سطح پر تحقیق کی بہت زیادہ ضرورت ہے اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے خطیر سرمایہ کی ضرورت ہے جس کا فراہم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اس مد میں جو رقم دنیا کو دے رہے ہیں وہ بہت زیادہ ہے اور اس سے ہزار گنا کم رقم میں وہ فوائد ہم مقامی طور پر اپنی یونیورسٹیوں سے حاصل کرسکتے ہیں مگر ایسا تب ہوگا جب فیصلہ ساز اس میدان کے فنکاروں کی جگہ اصل لوگوں سے مشورہ کریں اوراس سلسلہ میں تجزیہ کرکے اپنے اہداف مقرر کریں اور پھر ایک مخصوص ٹائم فریم میں ان اہداف تک پہنچنے کا انتظام کیا جائے ۔اس ملک کو چند مداریوں اور بابووںنے گزشتہ ستر برسوںمیں جو نقصان پہنچایا ہے ان کو سسٹم سے دور کرکے اداروں کو اہل لوگوں کے حوالے کیا جائے اور انہیں سیاست سے پاک کیا جائے جیسا دنیا بھر میں ہے تو ہم شاید کہیں جاکر ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکیں گے جو اس وقت ہمارے ملک کو درپیش ہیں ۔ہمارے تعلیمی ادارے ہماری سوچ اور اپروچ بناتی ہیں جس کو ہم معاشرے کی فلاح وبہبود کیلئے استعمال میں لاتے ہیں لیکن موجودہ نظام اور اس کے مسائل کی وجہ سے ہماری گزشتہ اور موجودہ نسل کی سوچ اور اپروچ کا مظاہرہ آپ پاکستان بھر میں دیکھ سکتے ہیں اس لیے اس مسئلہ پر سنجیدگی سے سوچنے اور حقیقی حل کیلئیاقدامات ناگزیر ہیں ۔ اب مقدار کی بجائے معیار کی طرف جانا ہوگا ورنہ یہی نظام ہماری بربادی کا سبب بنے گا ۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم