قانون سازی مگر دیکھ بھال کے

قومی اسمبلی نے سیکرٹ ایکٹ 1923ء میں ترامیم کا بل منظور کرلیا جس میں زمانہ جنگ کے ساتھ زمانہ امن کو بھی شامل کیا جاسکے گا، حکومت کو حالت امن میں بھی کسی بھی جگہ، علاقے، بری یا بحری راستے کو ممنوعہ قرار دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔ بل کے مندرجات کے تحت تحریر شدہ، غیر تحریر شدہ، ورچوئل، الیکٹرانک یا ڈیجیٹل مسودے کو بھی دستاویز میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ممنوعہ مقامات کی تعریف میں دفاع پاکستان سے متعلق دفاتر، کیمپ آفسز اور عمارت کے کسی بھی حصے کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ایکٹ کے تحت زمانہ جنگ کے ساتھ زمانہ امن کو بھی شامل کرنے کی تجویز ہے، بل کے تحت حکومت کو کسی بھی اہم بنیادی ڈھانچے کو نوٹی فکیشن کے ذریعے ممنوعہ علاقہ قرار دینے کا اختیار دینے کی تجویز ہے۔وقت اور حالات کی مناسبت اور ضرورت کے تحت قانون سازی اور قوانین میں ترمیم کی ضرورت سے عدم اتفاق کی گنجائش نہیں خاص طور پر گزشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران جس قسم کی نئی صورتحال اور نئے حالات سے وسطہ پڑا ہے ان حالات میں محولہ قانون سازی اور اس کا سختی سے نفاذ اپنی جگہ ناگزیر امر ہے البتہ وطن عزیز میں قوانین کا ان کی روح کے برعکس اور غلط استعمال کی ایک تاریخ رہی ہے اور ہمارا وتیرہ رہا ہے کہ قوانین سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے اور اس کا سیاسی و ذاتی اور گروہی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے یہاںتک کہ ادارہ جاتی طور پر بھی قوانین سے انحراف اور بے جا سختیوں وغیر ضروری پابندیوں کی نہ صرف مثالیں ملتی ہیں بلکہ اس طرح کی صورتحال نے ریاستی اداروں اور عوام کو آمنے سامنے لاکھڑا کردیا ہے۔ مشکل امر یہ ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی بھی نہیں ایسے میں محولہ قسم کے قوانین کے نفاذ سے مزید تضادات جنم لینے کے خدشات واضح ہیں ایسے میں ترامیم کے بل میں اس امر کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے کہ ان قوانین کے ممکنہ غلط اور ناجائز استعمال کی صورت میں سزا تجویز کی جائے اور ان حالات کی جامع اور ذیلی سطح تک تشریح پارلیمنٹ کرے جن کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے یہ ترمیمی بل لانے کی ضرورت محسوس کی گئی خواہ مخواہ کی بندش اور پابندیوں کی شکایات اور عوام کے نالاں بلکہ بعض جگہوں پر ردعمل میں حد سے گزرنے کی اب صورتحال نظر آتی ہے بعد میں خدانخواستہ تصادم کی کہیں نوبت نہ آئے ایسے میں احتیاط کے ساتھ ترامیم کرکے اور بوقت اشد ضرورت ان قوانین کا سہارا لینے کا فیصلہ مناسب ہوگا۔توقع کی جانی چاہئے کہ قانون سازی کے عمل کی تکمیل تک مزید سوچ بچار ہوگی اور کوئی کسر باقی نہیںرکھی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟