صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے

وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے افغانستان سے دہشتگردی روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس سلسلے میں افغانستان کو مدد کی ضرورت ہے تو ہم تیار ہیں۔ دفترخارجہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیںکہ افغان انتظامیہ پاکستان پر حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی، اگر استعداد کار کا مسئلہ ہے تو ہم افغانستان کی مدد کو تیار ہیں اور اگر کارروائی کرنے میں نیت کا مسئلہ ہے تو یہ الگ بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے دہشتگردی کے تناظر میں اپنے دفاع کے لئے عالمی قانون پر عمل کریں گے۔ اگر افغان حکام کارروائی نہیں کرتے تو افغانستان کے اندر کارروائی ہمارا ایک ایکشن ہوسکتا ہے، مگر یہ بہرحال ہمارا پہلا آپشن نہیں ہوگا۔ پاک فوج کے سربراہ کے سخت بیان کے بعد وزیر خارجہ نے بھی دہشت گردی نہ رکنے کی صورت میں افغانستان کے اندر کارروائی کرنے کی صریح الفاظ میں دھمکی دی ہے انہوں نے افغان عبوری حکومت سے کہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان کے اندر دہشت گردی روکنے اور اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے دینے کو روکنے کی ذمہ داری اور دوحہ معاہدے کے مطابق اپنے وعدے کو ایفاء کیا جائے۔ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی قیادت اور ان کے تربیتی کیمپوں جس کے اب القاعدہ سے اشتراک کی بھی اطلاعات ہیں اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس طرح کی صورتحال کے حوالے سے جب بھی اسلام آباد کی جانب سے کابل سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو وہاں سے بجائے اس کے کہ پاکستان کے تحفظات دور کرنے کیلئے کردار ادا کیا جائے الٹا ان عناصرسے مذاکرات کا ہی مشورہ ملتا رہا ہے۔ پاکستان نے اتمام حجت کے طور پر اس کی بھی سعی کی ملک بھر کے جید علماء کرام کا وفد کابل گیا مگر وہی مرغی کی ایک ٹانگ تمام تر مساعی بے نتیجہ اس لئے ثابت ہوئیں کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی محفوظ قیادت بجائے اس کے کہ مفاہمت کا رویہ اختیار کرتی الٹا ایسی شرائط پیش کردیں کہ اگر انہی شرائط کو تسلیم کرناتھا تو پھر سترہزار نفوس کی قربانی دے کر اور دشوارگزار علاقوں میں آپریشن کرکے اور لاکھوں افراد کو اندرون ملک منتقل کرکے تطہیری کارروائیوں کی پھر ضرورت ہی کیا تھی المیہ یہ نہیں کہ ٹی ٹی پی سے واسطہ پڑا ہے اور ملک دہشت گردی کاشکار ہے المیہ یہ ہے کہ پڑوسی ریاست کی جانب سے اپنے پرانے حلیفوں کی سہولت گیری کی جارہی ہے ان کی سرپرستی نہ ہو تو ٹی ٹی پی کا صفایا کرنا دشوار نہیں۔ قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا بالخصوص اور ملک جس قسم کے حالات سے گزر چکاہے وہ ایک بھیانک خواب کی طرح کا وقت تھا اب وہ حالات نہیں اگر قبائلی اضلاع سے فرار عناصر کو افغانستان میں پناہ نہ دی جاتی تو اب تک ان کا صفایا ہوچکا ہوتا ان عناصر کی واپسی اور سہولت کاری کا افسوسناک عمل گزشتہ حکومت کی طرف سے ہونا بھی مشکلات کا باعث امرہے جن لوگوں کو بلاسوچے سمجھے واپسی کی اجازت دی گئی تھی عین ممکن ہے وہ روپوش عناصر کی ہوں ان کے خلاف بھرپور تطہیری مہم ہوچکی ہے اور مزید کی بھی شاید ضرورت ہے گزشتہ دنوں باجوڑ میں جے یو آئی کے جلسے میں جن دہشت گرد عناصر نے خون کی ہولی کھیلی افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ بھی اسی حلیے اور نظریئے کے دعویدار ہیں جن کے جلسے کو ان کی جانب سے نشانہ بنایا گیا قطع نظر حلیے اور نظریات کے اگر کوئی خود کو کلمہ گو اور مسلمان کہلانے کا دعویدارہے اور دعوے کی حد تک ہی مسلمان ہے اگر مسلمان بھی نہیں صرف انسان ہی ہے تو بھی اس قدر وحشیانہ عمل کا کوئی بھی مرتکب نہیں ہوسکتا اس طرح کی دہشت گردی ہی کے باعث آج اغیار مسلمانوں پر پھبتی کستے ہیں مگر ہمسایہ ملک جہاں اقتدار اسلام پسندوں کے ہاتھوں میں ہے ان عناصر کی سرکوبی کیلئے تعاون پر آمادہ نہیں اور نہ ہی وہ اس ضمن میںتعاون پر آمادہ ہیں ایسے میں پاکستان کے پاس خود گرم تعاقب کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا قبل ازیں نیٹو اور امریکہ کی افواج بھی اس طرح کے حالات ہی میں افغانستان میں مداخلت کی اور ایک طویل جنگ لڑی گئی جس سے افغانستان کی ترقی اور عوام دونوں متاثر ہوئے اور دوحہ معاہدے کے بعد جب معاملات موجودہ حکومت کے ہاتھ آگئے تو پھر سے وہ حالات پیدا کئے جارہے ہیں اگر اسی طرح کی صورتحال رہی تو پھروہی صورتحال پیش آنے کا خدشہ ہے جس کا انتباہ آرمی چیف کرچکے ہیں اور اب وزیر خارجہ نے بھی مجبوراً اس کا عندیہ دیا ہے اس بارے کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس طرح کی صورتحال تباہ کن اور کسی کے مفاد میں نہ ہوگا لیکن ملکی سلامتی کو اگر اسی طرح خطرات کا سامنا رہااور کابل اس طرح لاتعلق رہا تو ایک مرتبہ پھر افغانستان دارالحرب میں تبدیل ہوسکتی ہے جس کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں عدم تعاون کرنے والوں پر ہی عائد ہوگی۔

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے