اسحق ڈار کا پی ڈی ایم پر خودکش حملہ

گزشتہ سے پیوستہ روز ایل پی جی کی فی کلوگرام قیمت میں 24روپے کے اضافے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا۔ قبل ازیں آئی ایم ایف سے معاہدے کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں تقریباً 8 روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا گیا اور اب پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں فی لٹر 19روپے 95 پیسے کے اضافے کا اعلان کر دیا گیا، ہمیشہ کی طرح چند پیسے اس بار بھی کم رکھے گئے تاکہ پٹرولیم مصنوعات فروخت کرنے والے فی لٹر پانچ پیسے کا بونس حاصل کرتے رہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ اضافے پر وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے جن زریں خیالات کااظہار کیا اس پر 25کروڑ کی آبادی والے ملک میں ان کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا شخص اعتبار کرسکے۔ گزشتہ سوا برس کے دوران مہنگائی تحریک انصاف کے پونے چار سالہ دور کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بڑھی، مہنگائی میں یہ بے لگام اضافہ ان لوگوں کے دور میں ہوا جن کا اپریل 2022ء سے قبل اٹھتے بیٹھتے یہ دعویٰ رہتا تھا کہ پی ٹی آئی کی ناتجربہ کار ٹیم نے ملک کو معاشی بحران سے دوچار کردیا ہے، اس وقت کی حزب اختلاف کے متعدد رہنماء جو اب چند دنوں کے مزید وزیر ہیں، ٹی وی پروگراموں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی رسیدیں دکھا کر پوچھا کرتے تھے کہ مہنگائی کے مارے عوام کہاں جائیں؟ یہی عوام اب کس کے دروازے پر فریاد کریں کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزرائے کرام اس ضمن میں بھی شہریوں کی رہنمائی کردیتے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 20 روپے لیٹر کے فوری اضافے کے ساتھ سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس کے علاوہ بازاروں گلی محلوں میں جو سوال سب سے زیادہ زیر بحث آیا وہ آئندہ عام انتخابات کے بارے میں ہے، لوگوں کی ایک بڑی اکثریت یہ کہتی دکھائی دے رہی ہے کہ اگر چند دن بعد حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد انتخابی عمل اور انتخابات مقررہ آئینی مدت میں منعقد ہونا ہوتے تو پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 20روپے لیٹر اضافے کا ظالمانہ فیصلہ ہرگز نہ کیا جاتا۔ مہنگائی سے بدحال ہوئے شہریوں پر یہ نیا عذاب توڑنے کی ضرورت کیا تھی۔ عوام کو تو بتایا جا رہا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے اور دوست ملکوں کے تعاون سے معاشی بحران پر قابو پالیا گیا ہے نیز یہ کہ نہ صرف دیوالیہ ہونے کے کھوکھلے دعوے ہمیشہ کیلئے دفن کر دیئے گئے ہیں بلکہ اگلے دو ہفتوں میں روپے کی قدر بھی بہتر ہوگی۔ گزشتہ روز ہی سٹیٹ بینک نے بھی یہ امید دلائی تھی کہ معاشی مسائل حل ہونے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آنے کے مثبت اثرات مہنگائی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے لیکن جس طرح آٹھ دس دنوں کے دوران بجلی کے فی یونٹ قیمت میں 8روپے، ایل پی جی فی کلوگرام قیمت میں 24 روپے اور پٹرول و ڈیزل کی قیمت میں20 روپے فی لیٹر اضافہ ہوا اس سے تو نہ صرف مہنگائی کا بدترین سیلاب آئے گا بلکہ مسائل مزید گھبمیر ہوں گے۔ ان حالات میں ہی عوامی حلقوں میں اس سوال پر بحث ہو رہی ہے کہ اگر انتخابات مقررہ وقت پر ہونا ہوتے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حکومت کی مدت پوری ہونے سے چند دن قبل اضافے کی منظوری نہ دی جاتی۔ ہماری دانست میں فیصلہ سازوں کو عام آدمی کے مسائل، اس کی قوت خرید، اوسط آمدنی اور دوسرے معاملات سے کوئی غرض نہیں بھاری بھرکم تنخواہوں کے ساتھ ہمہ قسم کی مراعات پر عیش کرنے والے پالیسی سازوں کے یوٹیلٹی بل قومی خزانے سے جمع ہوتے ہیں، اس لئے وہ ایک اوسط آمدنی والے شخص کی مشکلات و مسائل کو سمجھنے سے عاری ہیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی خوشخبری سناتے وقت لچھے دار باتیں کرنے والے وزیر خزانہ اور ان کے رفقاء یہ تو بتائیں کہ پٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں اضافے کے بعد وہ کون سا جادو ہے جو مہنگائی میں اضافہ نہیں ہونے دے گا اور عام آدمی متاثر نہیں ہوگا ؟ لگ بھگ 10روز میں بجلی، ایل پی جی، ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوا اضافہ معروضی حالات سے چشم پوشی کا عملی مظاہرہ ہے، ارباب سیاست و اختیار معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم کے خطرناک ہوتے چلے جانے اور اس سے جنم لینے والی قباحتوں سے آنکھیں چراکر اس عوامی ردعمل سے بچ نہیں پائیں گے جو لاوے کی طرح پک رہا ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں20 روپے لیٹر اضافے کا فیصلہ پی ڈی ایم کی سیاست پر خودکش حملہ ثابت ہوگا۔ بدترین معاشی مسائل سے دوچار شہریوں کو باتوں سے بہلانا ممکن نہیں، انتخابات اگر مقررہ آئینی وقت پر ہوئے تو ان فیصلوں کا خمیازہ پی ڈی ایم و اتحادیوں کو بھگتنا پڑے گا، حکمران اتحاد کی کوئی جماعت اب شہریوں کو یہ کہہ کر بیوقوف نہیں بنا سکے گی کہ ہم نے بہت چاہا کہ عوام دشمن فیصلے نہ ہوں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت کسی کی بھی ہو، طبقاتی مفادات کو ہی سبھی دیکھتے ہیں۔ سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی نے اپنے دور کے آخری مہینوں میں آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدہ کے برعکس پٹرولیم اور بجلی پر سبسڈی دے کر ظلم کیا تھا تو تجربہ کاروں نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کے نام پر مزید ستم ڈھائے، اندریں حالات تلخ حقیقت یہی ہے کہ طبقاتی جمہوریت کے محافظوں سے جمہور کے لئے ہمدردی کی توقع فضول ہے، عام آدمی کے مسائل اس کی اوسط آمدنی، آمدنی کے مقابلہ میں سوفیصد زائد اخراجات سے پیدا ہوئی مشکلات ان سب کا حکمران قیادت کو ماضی میں احساس تھا نہ آج ہے۔
بجلی، ایل پی جی اور پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، یہ توقع عبث ہی ہوگی کہ حکومت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گی، زیادہ سے زیادہ ان فیصلوں کو آئی ایم ایف معاہدے کی مجبوری بتا کر عوام کو بہلانے کی کوشش کی جائے گی، سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات اور معاہدے کے وقت ہمارے پالیسی سازوں نے اپنے لوگوں کی حالت زار کو مدنظر رکھنا کیوں ضروری نہیں سمجھا۔ اسی طرح یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ آئی ایم ایف نے جن شعبوں کے اخراجات کم کرنے کا کہا تھا ان کے اخراجات میں کمی کیوں نہیں لائی گئی؟۔

مزید پڑھیں:  ''دوحہ طرز مذاکرات'' سیاسی بحران کا حل؟