صدا بہ صحرا ہوتا ہوا روایتی احتجاج

جب سے آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت کے حوالے سے قرضے کے حصول کے معاملے پر شکنجے سخت کرنے اور مختلف مدات میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے حکومت پر دبائو بڑھانا شروع کیا ہے اور بطور خاص یوٹیلٹی کے شعبوں میں قیمتیں بڑھانے کی مجبوری حکومت کوآن پڑی ہے عوامی احتجاج کی تمام ترکوششیں اور اس حوالے سے اٹھائی جانے والی آوازیں صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہیں ‘ تقریباً ہر مہینے بجلی کے نرخوں میںاضافہ اب ایک روایتی شکل اختیار کرچکا ہے ‘ جس کی وجہ سے سردی کاموسم شروع ہو جانے اور ایئر کنڈیشنرز ‘ واٹر کولر اورپنکھوں کے استعمال کے خاتمے کے باوجود بجلی بلوں میں وہ کمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے ‘ تازہ خبروں کے مطابق بجلی مزید ایک روپے 25پیسے یونٹ مہنگی کرنے کے حوالے سے نیپرا نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے تاہم ممکنہ طور پراسے جلد ہی سنا کرعوام پرایک اور بجلی بم گرا دیا جائے گا ‘ اس بارے میں عوام جتناچاہیں احتجاج کریں ‘ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والاہی نکلے گا ‘ اس لئے جب بھی اس نوع کی خبریں آتی ہیں تو اخبارات میں تبصرے اور تنقید بھی بس روٹین کی ہی کارروائی لگتی ہے تاہم ان تبصروں سے کم ازکم عوام کو یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ان کے جذبات کی ترجمانی میں اخبارات ان کے ساتھ ہیں ‘ باقی اس احتجاج کے نتائج سب کو معلوم ہیں مگرعوام کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ ضروری بھی ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال